خودی کو کر بلند اتنا۔ ۔ ۔ یا حقائق کا ادراک؟


شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کو حریت اور آزادی کا جو درس دیا تھا اس میں ان کا تصور خودی بھی شامل تھا۔ میں نے علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کی بہت کوشش کی لیکن ہمیشہ خفت اٹھانی پڑی اس لیے میں نے اس کا مفہوم اپنی آسانی کے لیے خودداری، حمیت، غیرت یا شعور ذات جیسی عام فہم اصطلاحات میں تلاش کیا۔

اگر پورا سچ بیان کروں تو میٹرک کے امتحان کی تیاری کے لئے استاد محترم نے علامہ اقبال کی ایک نظم کے حوالے سے پہلی مرتبہ ان کے فلسفہ خودی پر روشنی ڈالنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ موضوع ہم جیسے اوسط طلبا کے لیے نہیں۔ دوسری طرف استاد محترم تھے کہ موضوع کو کھینچنے چلے جا رہے تھے۔ انہوں نے موضوع کے حوالے سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مختلف ممالک کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔

کلاس میں میری سیٹ کھڑکی کے قریب تھی جس سے سکول کا تمام گراونڈ نظر آتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ سکول کے چند لڑکے سکول کی کالی یونیفارم کی بجائے سفید یونیفارم پہنے تپتی دھوپ میں جوڈو کراٹے کی پریکٹس کر رہے ہیں اور ایک دوسرے پر وار کرتے وقت ڈرانے کے لئے منہ سے تیز آوازیں بھی نکال رہے ہیں۔ یہ آرٹ ان ہی دونوں میں نوجوان میں نیا نیا مقبول ہوا تھا۔ میں نے جب استاد محترم سے دنیا کی بڑی جنگوں میں قوموں کی ”خودی“ کے حوالے سے نہ ختم ہونے والی بحث سنی تو میں نے سمجھا کہ خودی کی منزل حاصل کرنے کے لئے اوپر سے نیچے تک قوم کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ جوڈو کراٹے کے فن میں ماہر ہو جس کے لئے ہماری قوم نے ابھی سے تیاری شروع کر دی ہے۔

برصغیر میں تحریک آزادی کی جدوجہد بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی جس کی بدولت آج ہم ایک آزاد مملکت کے شہری ہیں۔ علامہ اقبال کا فلسفہ آج بھی ہمارے لئے نشان راہ بلکہ منزل راہ ہے۔ البتہ آزادی کی منزل حاصل کرنے کے بعد اب ہمیں ایک طرف اپنی آزادی برقرار رکھنے اور دوسروں طرف صحیح معنوں میں ایک متحد قوم بننے کا چیلنج درپیش ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر بچے کو وہی کھلونے ملتے ہیں جو اس کے باپ کو بچپن میں کسی مجبوری کی وجہ سے نہ مل پائیں۔ وطن عزیز کی بہتر سالہ تاریخ میں گزر بسر کرنے والی نسل بھی یہی خواہش رکھتی ہے کہ آئندہ کی نسلوں کو وہ کچھ بھی ملے جس سے وہ محروم رہے۔

آج کی فلاحی ریاست کے تصور میں بات اب روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں ہر شہری کے لئے تعلیم، علاج اور کئی دیگر سہولیات بھی لازم سمجھی جاتی ہیں۔ وطن عزیز میں شہریوں کی بنیادی سہولیات کے حوالے سے عوام کی حالت اب بھی ”وہی صبح بے قراراں، وہی شام اشک باراں“ جیسی ہے۔ ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت نے اقتدار کے زینے پر قدم رکھنے تک وعدوں اور دعووں کے وہ وہ انبار لگائے کہ سادہ لوح عوام نے سمجھا کہ اب ان کے دن بدل جائیں گے لیکن پھر بقول فیض ان کو کہنا پڑا ”ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی/ جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی“ ۔ حکمران اقتدار کے حصول تک عوام کے شعور کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے لیکن یہ محض ان کو بہکانے کی چال ہوتی ہے۔ ہندی کہاوت ہے کہ گائے کو اپنی پوجا سے زیادہ چارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام بھی خراج تحسین سے زیادہ اپنی بنیادی ضروریات کے لئے فکر مند ہے۔

حکمرانوں کے بعد معاشرے کے کردار کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں ہم سب شامل ہیں۔ ہم کام کیے بغیر پیسے کمانا چاہتے ہیں، ہماری خوشیاں صرف اسی صورت دوبالا ہوتی ہیں جب ہم انہیں ایسے انداز سے منائیں کہ مخالفین کو اس سے تکلیف پہنچے، سرکار کی نوکری جو اکثر سفارش سے حاصل کی ہوتی ہے کو بوجھ لیکن تنخواہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دو نمبر کاروبار میں برکت کے خواہاں رہتے ہیں۔ اسی طرح ہم بطور فرد اپنے مسلک اور سیاسی جماعت کا پرچار کرتے وقت صرف مقابل فریق سے شائستگی، اعلیٰ ذوق اور بہترین طرز عمل کی توقع کرتے ہیں جبکہ اپنے لیے ایسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے۔

وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آج ہم ”خودی“ کی کون سی منزل تک پہنچ پائے ہیں لیکن اب ہمیں اپنے باقی معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ایک طرف ہم اپنی ریاست کے لئے ”مملکت خداداد، اسلام کا قلعہ اور ریاست مدینہ“ جیسے نام استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے معاملات کچھ اور منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے ہر برائی سے سمجھوتہ کر لیا ہے، آپ سے صرف ایک سوال اٹھا کر آگے بڑھتا ہوں کہ کیا آپ نے وطن عزیز میں لاتعداد پڑھے لکھے لوگوں کو پوری ڈھٹائی اور فخر سے یہ کہتے نہیں سنا کہ ہمیں بہت سی بیماریاں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتیں کیونکہ ہمیں ساری زندگی گندے ماحول میں رہنے اور ناقص خوراک کھانے کی پختہ عادت ہو چکی ہے؟

بحیثیت قوم جہاں تک ممکن ہو، ہمیں قومی تفاخر اور خودی کے معاملے میں حساس ہونا چاہیے لیکن ہمیں وقت کی موجودہ رفتار اور کل کی خبر بھی رکھنی چاہیے تاکہ کل کے امکانات ضائع کرنے کے بعد ہم ماضی کی طرح ایک دوسرے سے شاکی نہ ہوں اور یہ کہنے کا سوال پیدا نہ ہو کہ ”اب جام کا مصرف کیا ساقی، جب رات گزرنے والی ہے“ ۔

حقائق کا ادراک، کل کو آج ہی جاننے کا وسیلہ ہے۔ اس سے آگے کا علم، علم غیب کہلاتا ہے جو کہ صرف اللہ کی ذات عالی شان کے لیے مختص ہے۔ حقائق کو پانے کے لئے علم زاد راہ کا کام دیتا ہے۔ ۔ ۔ وہی علم جو مومن کی گم گشتہ میراث ہے۔ مسدس حالی کے ایک پورے بند کو نقل کر رہا ہوں۔ یہ بند مولانا مرحوم نے دعا کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے لکھا تھا۔ پڑھ کر امین کہیں اور ان کی خواہش کی تکمیل کریں۔

”انہیں کل کی فکر آج کرنی سکھا دے
ذرا ان کی آنکھوں سے پردہ اٹھا دے
کمین گاہ بازی دوراں دکھا دے
جو ہوتا ہے کل آج ان کو دکھا دے
چھتیں پاٹ دیں تاکہ باراں سے پہلے
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments