بس کم ہونا چاہیے


اقوام عالم کی تاریخ دیکھی جائے تو ان کی تہذیب و تمدن، علم سے محبت اور خصوصاً معاشرتی رویوں میں ان کے عروج کا راز پنہاں نظر آتا ہے۔ مگر ان سنہری اصولوں کو خاک پا کر دینے کی جو صنف ہم نے پائی ہے وہ تاریخ کی کتب میں ڈھونڈے نہیں ملتی۔ ہر امر کا جواز اور کسی بات کا جواب رکھنے میں ہمارا جواب نہیں۔ ہمارے بیشتر اخلاقی کھوکھلے پن اور تربیت سے عاری اعمال کا ہمارے پاس یہی نادر نسخہ ہے کہ ”بس کم ہونا چائدہ اے“ (بس کام ہونا چاہیے) ۔

یہ محض ایک فقرہ نہیں بلکہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ یہ رویہ کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ صحیح و غلط کی تعریف کا پیمانہ اب شاید اسی کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ چاہے ایک موٹر سائیکل سوار بیچ سڑک رک کر درمیان کی تقسیم کو کراس کر کے دوسری جانب جانا چاہے جبکہ یو ٹرن صرف سو گز دور ہو، ڈاکٹر نامکمل تشخیص کے بعد مریض کو متعدد امراض کی دوائیں لکھ ڈالے، وکیل جلد کیس دائر کرنے کی خاطر موکل کے دستخط خود کر دے، پھٹا ہوا کرنسی نوٹ بینک سے تبدیل کرانے کی بجائے پیٹرول پمپ پر چلا کر بری الذمہ ہوا جائے، لائن میں لگنے کی جگہ باپ دادا تک کے تعلقات استعمال کر کے چند منٹ بچا کر فخر کرنا ضروری لگے، سرکاری محکمہ جات سے عام معمول کے کام کے لئے سفارش کرا کر پروٹوکول محسوس کرنے کا من ہو، مفت بریانی یا قیمہ والا نان حاصل ہو جائے چاہے کسی کو ہی ووٹ دینا پر جائے، ہمارے بیشتر ہم وطنو کے دماغ میں ایک ہی جواز ہے کہ ”بس کم ہونا چائدہ اے“ ۔

پھر جب یہی قوم کسی خاتون کو حساس ادارے کا نام استعمال کرتے ہوئے پولیس کی رکاوٹ زبردستی کراس کرتے یا کسی بڑے کاروباری کی عزیزہ کو کسی کے گھر میں گھس کر مار پیٹ کرتے اور یا پھر کسی خواتین کے کپڑوں کے برانڈ کے مالکان کو انسانو کی جان خطرے میں ڈالنے کے بعد مظلومیت کا درس دیتے ہوئے دیکھ کر سوشل میڈیا پر اچھل اچھل کر واویلا کرتی ہے تو دنیا محو حیرت اور انگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ کون لوگ ہو تم۔

کورونا وائرس کیا اس کا باپ بھی آ جائے تو ہم حکومت کے کہنے پر اندر بیٹھنا توہین سمجھتے ہیں کیونکہ نظم و ضبط ہماری گٹھی میں نہیں اور پیر کی مریدی کے بغیر چلنا ہماری سرشت میں نہیں، پھر پیر چاہے بندا ہو یا ڈنڈا سر آنکھوں پر۔ آج جبکہ دنیا اس وبا کو مرحلہ وار شکست دینے کی امید پر ہے، ہماری غریب بھوک سے مرتی پبلک نے عید سے پچھلے دو روز میں صرف 4 ارب روپے کی شاپنگ کر کے اپنا کام دکھا دیا۔ کیا ہوا جو چند ہزار لوگ مزید وبا کا شکار ہو گئے اور وبا کے خاتمے کی کوشش میں ہم پیچھے رہ گئے، ہمارا تو ”بس کم ہونا چائدہ اے“

یہ طرز دیکھ کر پہلے ہنسی آتی ہے، پھر افسوس دامن گیر ہوتا ہے اور پھر ناچار دعا نکلتی ہے کہ یا تو کوئی مانا ہوا پیر کامل اس قوم کی تشفی کے لئے حکومت میں آ جائے یا پھر ڈنڈا بردار، بس کم ہونا چائدہ اے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments