اوورسیز پاکستانیوں کی ہچکیاں


یہ مدینہ منورہ سے ایک پاکستانی مسافر بھائی کی کال تھی۔ میں ابھی ابھی اوورسیز پاکستانیوں کے لئے سوشل میڈیا پر ایک پروگرام سے فارغ ہوا تھا۔ میں نے جیسے ہی موبائل فون کا بٹن دبایا دوسری طرف ہچکیوں نے میرے اوسان خطا کر دیے۔ میں نے بے شمار آوازیں دیں لیکن آپ یقین کیجیئے صرف ہچکیاں ہی آ رہی تھیں۔

اللہ اللہ کر کے جیسے ہی فون کرنے والے کی حالت سنبھلی تو وہ گویا ہوئے ”بھوک اور پیاس کی صعوبتیں انسان کو کتنا کمزور کر دیتی ہیں اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں بس گھر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے میرے بچوں کے سامنے زندگی کی ہر اذیت قبول ہے۔ میں بھوکا بھی ہوں پیاسا بھی ہوں لیکن اذیت کے دردناک لمحات میں گھر والوں سے دوری بہت بڑا عذاب ہے۔ ہمارے پاس ہماری پوری جمع پونجی ختم ہوچکی ہے گھر والوں کا تو اللہ ہی حافظ۔ یہاں کی حکومت اور ہمارے کفیل بھی ہمیں سہولت دینے کے لئے تیار نہیں۔ پچھلے دنوں مجھے سعودی عرب کے ایک رہائشی نے چند دنوں کا راشن دیا اب وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ روز ہم سفارتخانے کا چکر لگاتے ہیں لیکن ہمیں کوئی وقت نہیں دیتا۔ کرونا کے اس کرائسز میں تو اب گھر واپسی کا صرف ہم تصور ہی کر سکتے ہیں۔ مجھ سے یہاں خروج کے لئے دس ہزار ریال مانگے گئے ہیں اور میری ماہانہ تنخواہ صرف پندرہ سو ریال ہے اور وہ بھی اب بند ہے۔ صرف میں ہی نہیں یہاں تمام پاکستانی در بدر ہیں“ ۔

ہم نے بحیثیت عام انسان بے شمار اذیتوں کا سامنا کیا ہے۔ صرف مجھے ہی نہیں بے شمار لوگوں کو اوورسیز پاکستانیوں کی اس حالت کا علم ہوگا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں جو ان کے زور بازو بنے۔

میں وہ واحد انسان نہیں ہوں جو کرونا کے اس کرائسز میں بے شمار اوورسیز پاکستانیوں کی آہیں اور سسکیاں سن چکا ہے۔ روز سوشل میڈیا پر ان کے بے شمار تکالیف کا تذکرہ ہوتا ہے۔

آپ تصور کیجیئے آپ کا کوئی رشتہ دار ان حالات میں دیار غیر میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو اور آپ اس کے لئے کچھ بھی نہ کر سکتے ہو تو آپ پر کیا گزرتی ہوگی۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک مسافر ایک دوسرے مسافر کی لاش کی ویڈیو بنا رہا ہوتا ہے۔ اس کے مطابق یہ لاش کئی دنوں سے کمرے ہی میں موجود ہے اور لاش کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے انہوں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت برف کے ٹکڑوں میں لپیٹا ہوا ہے۔

کیا اس سے بھی بری کوئی حالت ہو سکتی ہے۔ ایک خاندان کا چشم و چراغ جس سے ہزار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں بھی کسی کا بھائی ہوتا ہے، کسی کا باپ ہوتا ہے، کسی کا بیٹا ہوتا ہے۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس کرائسز نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ حکومتوں کے پاس وسائل کی کمی ہے لیکن پھر بھی وہ کوشش کر رہے ہیں اور اپنے شہریوں کے لئے حتی المقدور آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے سفارتخانوں میں جو لوگ تعینات ہیں ان کی غیر سنجیدگی نے ان کا دل توڑا ہے اور ایسے میں جب ذمہ دار لوگوں طرف سے انتہائی غیرسنجیدہ بیان سامنے آتے ہیں تو یہ ان کے لئے کسی قیامت صغرٰی سے کم نہیں ہوتا۔

ہم ان لوگوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں یہ بہت ہی اہم ہے۔

حکومت پاکستان کو اس وقت بے شک بے تحاشا چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کرائسز میں ابھرنا ہی ذمہ دار قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔ اس کرائسز میں حکومت کو اپنی وزارت خارجہ کو بیانات کی وجہ بجائے کام پر لگا دینا چاہیے۔ باہر ملکوں میں جتنے پاکستانی پھنسے ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں ان کو یا تو ملک واپس لانا چاہیے یا اگر وہ نہ آنا چاہیں تو اس ملک میں پاکستان کے سفارتخانے کو دن رات کام پر لگا دینا انتہائی ضروری ہے۔ ان کو واپس لانے کے لئے ٹکٹ کے پیسے بڑھانے کی بجائے کم کردینے چاہیے۔ ملائشیاء اور سعودی عرب کے حوالے سے خاص طور پر یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ وہاں سارا دن غریب مزدور سفارت خانوں کے باہر دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

وہ وقت کوئی نہیں بھلا سکتا جب باہر سے پاکستانی اپنے خرچے پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے آئے اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت سے ان کی توقعات بھی بے شمار ہیں۔ سفارتخانوں میں بیٹھے سفارتکار دن رات کام پر لگ جائیں گے تو کوئی مشکل نہیں کہ ان مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔

یہاں پاکستان میں جتنے بھی حکومت کے نمائندے ہیں ان کو متحرک کر دینا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے خاص طور پر جو لوگ ملک سے باہر پھنسے ہوئے ہیں ان کے گھر والوں کے اپروچ کرنا چاہیے۔ ایسے بے شمار گھرانے ہیں جن کی کل کائنات یہی باہر سے بھیجے ہوئے پیسے تھے جو اب ان کو نہیں مل رہے۔ آپ یقین کیجیئے ہر علاقے کا ایم پی اے اگر صرف ایک مہینہ بھی خلوص دل سے اپنے ساتھ پارٹی ورکروں کو ملا کر کام پر لگا لے تو بے شمار مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

یہ باہر جو بیٹھے ہیں یہ اس ملک کے ہی باشندے ہیں۔ ہمارے بھائی اور رشتہ دار ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کی داد رسی وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اندرون ملک ہر مشکل کا سامنا کیا جاسکتا ہے لیکن بیرون ملک یہ ایک صبر آزما کام ہوتا ہے۔ جنون کی جو شدت اوورسیز پاکستانیوں نے دکھائی تھی ان کو زندہ رکھنا ازحد ضروری ہے۔ میری طرح کوئی یہ نہیں چاہتا کہ یہ جنون ختم ہو کیونکہ ظاہر ہے یہ امید اور جنون اگر اسی طرح نفرتوں پر ختم ہوا تو ایک پوری اجتماعیت مایوسی کا شکا ر ہو جائے گی جس کا ازالہ صدیوں میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔

اوورسیز پاکستانیوں کی آہیں اور سسکیاں قیامت ڈھاتی ہے اور ان سسکیوں کو مسکراہٹوں میں بدلنا حکومت کے لئے انتہائی آسان ہے بس ہمت کی ضرورت ہے۔ آپ دل سے تسلیم کیجیئے جس دن ہمت، خلوص اور حوصلے سے کام لیا گیا اس دن سے ہی ہماری نئی زندگی کا آغاز ہوگا۔

ان لوگوں کو اگر یوں ہی بے یارومددگار چھوڑا گیا تو ہمارے لئے مشکلات اور بھی زیادہ ہوں گی جن کا ہم بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتے۔

آگے بڑھیے۔ ہر مشکل کا حل بس ایک قدم کی دوری پر ہوتا ہے۔ قدم بڑھائیے کہ یہی وقت ہے۔ یہی تاریخ رقم کرنے کا وہ نادر موقع ہے جس کی شاید ہمارے حکمرانوں کو سالوں سے تلاش تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments