ایک کٹر مذہبی مشرقی باپ کی کہانی


ہمارے سماج میں رنگ برنگے پرندوں کو پنجروں میں ڈال کر ان کی رنگ برنگ خوبصورتیوں کو انجوائے کیا جاتا ہے کیونکہ ہمیں ہر قسم کی آزادی سے ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہاں پر بچپن سے ہی انسانی ذہنوں کو مختلف قسم کے تقدیسی پنجروں میں قید کر لیا جاتا ہے۔ بچوں کو ایک ایسے بندھے بندھائے اور رٹے رٹائے تسلسل کا ایک ایسا ذہنی غلام بنا دیا جاتا ہے، جس سرکل سے وہ پوری زندگی باہر نہیں نکل پاتے اور پھر یہ سلسلہ نسل در نسل ایک ظالمانہ چکر کا روپ دھار لیتا ہے۔

بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کو روایتی اور گھسے پٹے جوابوں سے بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں مذہبی پٹی سے آگے بڑھ کر سوچنے کی بہت زیادہ ممانعت کی جاتی ہے۔ ہم اپنی نسلوں کو رنگ برنگی سوچوں کے سر چشموں سے سیراب ہونے کی آزادی نہیں دیتے کیونکہ ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ ہماری نسل بھی منصور، گلیلیو، سقراط اور چارلس ڈارون کی طرح آؤٹ آف دی باکس نہ چلی جائے اور روایتی حقائق کو ترک کے نئے حقائق کی تلاش کی لت میں مبتلا نہ ہو جائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ اس مقدس شکنجے کی گرفت کو ڈھیلا کر دے گا جو کہ مختلف روایتی حربے استعمال کر کے ہمارے ذہنوں کے گرد کسا جاتا ہے۔

میں آج آپ کو ایک ایسے ہی کٹر مذہبی باپ کی سچی کہانی شیئر کرنا چاہوں گا۔ اس باپ کا نام عبدالقیوم ہے اور اس کی زندگی کا کل اثاثہ وہ کٹر مذہبی پن کا ماحول تھا جس میں یہ پلا بڑھا تھا۔ اس نے اپنے ماحول سے یہ باتیں سیکھی تھیں۔

1۔ اپنے بچوں کو دنیاوی کفریہ تعلیم دینے کی بجائے مذہبی تعلیم دینی چاہیے۔
2۔ اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی بجائے ان کو عالم دین بنانا چاہیے۔
3۔ دنیاوی کتابیں پڑھانے کی بجائے قرآن کا حافظ بنایا جائے۔

4۔ اپنے بچوں کو پہلے پیار سے اور اگر وہ نہ مانیں تو پھر ہر طرح کی سختی کر کے دینی تعلیمات پر عمل کروایا جائے۔
5۔ جن والدین کے بچے حافظ قرآن ہوں گے وہ اپنے والدین کی انگلی پکڑ کر جنت میں لے جائیں گے۔

ان تعلیمات کی روشنی میں عبدالقیوم نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو ایک مدرسے کو سونپ دیا۔ بڑے بیٹے نے جب ناظرہ پڑھ لیا تو پھر اس کو حفظ پر لگا دیا۔ اس بڑے بیٹے کا نام ریحان تھا۔ ریحان بیچارے کا حفظ کی طرف رجحان نہ بن سکا تو قاری صاحب نے قیوم سے شکایت کی کہ اس کا حافظہ بہت کمزور ہے اور وہ حفظ کرنے میں دلجمعی پیدا نہیں کر پا رہا ہے۔ یہ بات سن کر قیوم نے قاری صاحب سے مودبانہ انداز میں ایک گزارش کی۔ وہ گزارش یہ تھی کہ ”مولوی صاحب گوشت آپ کا اور ہڈیاں ہماری“ مجھے تو بس بچہ حافظ قرآن بنا کر ہی واپس دیجیے گا۔

بس پھر کیا تھا ایک ظلم و ستم کی لمبی داستان ہے۔ قاری صاحب کبھی الٹا لٹکا کر اور کبھی پاؤں میں زنجیر باندھ کر پانی والے پائپ کے ساتھ اتنا بے دردی سے مارتے تھے کہ کبھی تو جسم سے خون بہنے لگتا تو کبھی پیشاب نکل جاتا تھا۔ اس ظلم و ستم کے سائے میں ریحان نے آٹھ پارے حفظ کر لیے مگر جب دہرائی ہوتی تو اکثر آیات بھول جاتیں تو پھر وہی مار کٹائی کا منظر شروع ہو جاتا۔ ریحان پر اس مار کٹائی کا بہت برا اثر ہوا اور وہ ایک طرح سے ذہنی مریض بن گیا اس کے دل میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا۔

ایک دن ڈرتے ڈرتے ریحان نے اپنے والد سے کہا کہ وہ حفظ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ سکول کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قیوم نے یہ سن کر پہلے تو ریحان کو ڈانٹا اور پھر کچھ دوست احباب کے مشورے سے آخر کا رضامند ہوگیا۔ ریحان آج بہت خوش تھا کہ وہ آج پہلی دفعہ سکول جا رہا ہے، وہ رنگ برنگی کتابیں پڑھے گا اور تختی بھی لکھا کرے گا مگر جیسے ہی وہ سکول کے گیٹ کو پار کر کے اپنی کلاس میں داخل ہوا تو وہ کپکپانے لگا کہ کہیں یہ استاد بھی قاری صاحب کی طرح مجھے مارنے نہ لگ جائے۔

مدرسے کی بے دردی والی مار نے اس کے ذہن میں ایک ایسے خوف کی صورت میں گرہ لگا دی تھی کہ جس گرہ کو وہ اپنی کالج لائف تک نہ توڑ سکا۔ وہ ہمیشہ کلاس کی آخری قطار میں سب سے پیچھے چھپ کر بیٹھتا تھا کہ کہیں استاد کی نگاہ اس پر نہ پڑ جائے اور وہ کوئی سوال نہ پوچھ لے۔ اسے کلاس میں کھڑا ہونے سے ہی ڈر لگتا تھا اور کبھی کبھار اگر استاد نے کوئی شعر وغیرہ سنانے کو کہا تو ریحان کا حلق خشک ہو جاتا تھا اور ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں۔

وہ کالج لائف تک بیک بینچر ہی رہا مگر المیہ یہ ہے کہ کسی استاد اور پروفیسر نے اس کی اس ذہنی خوف کی فضاء کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ریحان اکیلا ہی اپنی دنیا مین مگن رہتا تھا اور اب تو وہ ایک ایسی کیفیت کا شکار ہو چکا تھا کہ وہ اکیلا خود سے ہی باتیں کرتا رہتا تھا کیونکہ اس کو سمجھنے والا اس کو کوئی اپنا نہ مل سکا تو اس نے اپنی ہی ایک ذہنی دنیا بسا لی۔ کہتے ہیں کہ سیکھنے والے زیادہ تر بیک بینچرز ہی ہوتے ہیں۔ ریحان کے ذہن میں بھی مختلف سوال پیدا ہوتے تھے اور وہ خود ہی اپنی ذہنی دنیا میں مگن رہ کر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ

1۔ اگر قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی چیز ہے تو اس کو رٹا کیوں جاتا ہے؟
2۔ میرا اس وسیع کائنات میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
3۔ کیا علم کو حاصل کرنے کے لیے اس کو رٹنا ضروری ہوتا ہے؟

4۔ یہ جاننے کا پیمانہ کیا ہے کہ یہ تعلیم دنیاوی ہے اور یہ دینی؟
5۔ اگر اس دنیا نے ختم ہی ہو جانا ہے تو پھر تخلیق کا کیا مقصد ہوا؟
6۔ اگر ہمیں سب سچائیاں مل چکی ہیں تو پھر جستجو کس بات کی؟

اس کے علاوہ بے شمار اور ان گنت سوالات ریحان کے دماغ میں کلبلاتے رہتے ہیں اور وہ خود ہی اپنی دنیا میں مگن رہ کر ان سوالوں کو کھوجتا رہتا ہے کیونکہ مدرسے کی ظالمانہ مار پیٹ نے اس کی ذہنی صلاحیتوں کو ایک عجیب قسم کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ ریحان آج بھی معاشرے کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے اور بس یونہی اپنی ہی ذات سے الجھتا رہتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اس سارے المیہ کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ ذہن چارلس ڈارون، کارل مارکس یا ارسطو نہیں بن سکتا تھا؟ کیا اس المیہ کا موردالزام ہم عبدالقیوم یا مدرسے کے قاری صاحب کو دے سکتے ہیں؟ یا وہ روایتی سرکل ذمہ دار ہے جو اس قسم کی سوچ کی نسلوں سے آبیاری کر رہا ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments