خواجہ سرا بچوں کو والدین کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟


آج کل جس دور میں ہم رہ رہے ہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہیں۔ دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک دوسرے سے روابط رکھنا اور دوسروں کے خیالات جاننا اب مشکل نہیں رہا۔ اس دور میں لوگ تبدیلی کے حامی ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی دماغی یا جسمانی بیماری کا ہونا ایک عام بات ہے۔ ڈپریشن، گھبراہٹ (اینگزائیٹی) ، یادداشت کی کمزوری، ڈسلیکسیا، شیزوفرینیا، فوبیا وغیرہ اب عام بیماریاں سمجھی جاتی ہیں جو قابل علاج ہیں، تو خواجہ سرا ہونا ایک گناہ کیوں تصور کیا جاتا ہے؟

خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں مگر پھر بھی انہیں اس معاشرے کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگی میں خواجہ سراوں کو دیکھتے ہیں اور ان کی حالت پر ترس کھاتے ہیں مگر ان کی حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ خواجہ سراوں کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم بچپن سے اپنے بڑوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ خواجہ سرا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ایک تیسری جنس ہے۔ ان کے جسمانی اعضا عام مرد اور عورت سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ وہ ایک علیحدہ جنس ہیں۔

خواجہ سرا ہونا بھی ایک جسمانی مرض ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ایک سیل کی زیادتی سے پیدا ہونے والے بچے کسی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ عام انسانوں سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ خواجہ سرا بھی ایسے ہی سیلز کی تبدیلی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان کا جسم اور دماغ باقی سپیشل بچوں کے برعکس بالکل ٹھیک ہوتا ہے مگر ان کی جنس اور صنف آپس میں مطابقت نہیں رکھتی۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو جنس مرد مگر صنف عورت ہوتی ہے یا جنس عورت اور صنف مرد ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اگر یہ تیسری جنس موجود بھی ہے تو ان کا ذکر ہمیں قرآن میں کیوں نہیں ملتا؟ کیا اللہ تعالیٰ بھی اپنی اس پیدا کردہ مخلوق کو پسند نہیں کرتا؟ جب قرآن میں جن، شیاطین، ملائکہ، حور، مرد، عورت، جانور، حشرات تک کا ذکر ہے تو آخر ان کا ذکر کیوں نہیں؟ کیا ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ لڑکوں کا جسم رکھتے ہوئے گڑیا سے کھیلنا چاہتے ہیں؟ یا لڑکی کا جسم رکھتے ہوئے ان کی آواز اور نین نقوش مردانہ ہوتے ہیں؟

کیا ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ اپنی ہی جنس سے مطابقت نہیں رکھتے؟ یا وہ اپنی صنف کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں؟ جب کوئی دوسرا بچہ، جو چلنے، پھرنے، بولنے، سننے سے معذور ہو۔ ماں باپ کے پیار محبت، توجہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے تو یہ بچے اس پیار، محبت اور توجہ کا حقدار کیوں نہیں ہیں؟ کیوں اسے ایک ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی ہے اور اس دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے؟

یہ درندہ صفت سماج جو دو تین سال کے بچے، بچیوں کو ان کے اپنے گھروں میں نوچ ڈالتے ہیں وہ کسی لاوارث جواں جسم کو اپنی ہوس کا نشانہ کیوں نہیں بنائیں گے۔ یہ معصوم جانیں جب اپنی ماں کی آغوش اور باپ کے سائے سے محروم کر دیے جاتے ہیں، تو پھر جینے کے لئے اس ستم ظریف معاشرے کی بھوک مٹانے کا سامان بن جاتے ہیں۔ ہر کوئی گدھ کی طرح اس انتظار میں طاق لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ کب ان کی ہمت جواب دے اور وہ اس معصوم کی بوٹی بوٹی نوچ کھائیں۔

ایک ماں جسے اپنے بچے کے بغیر ایک لمحہ سکون نہیں آتا، وہ اس معصوم پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے پر کیونکہ راضی ہو جاتی ہے؟ وہ باپ جو اولاد کا سائبان ہوتا ہے وہ اپنی اولاد کو بے سائبان کیسے کر دیتا ہے؟ کیوں ایک زائد سیل کی موجودگی کی سزا اس ننھی جان کو اپنی عزت، گھر، خاندان، پہچان اور جان دے کر چکانا پڑتی ہے؟

جو ماں باپ معذور بچوں کو پالتے ہیں، ان کے علاج پر لاکھوں لگا دیتے ہیں، وہ ان بچوں سے پیار کیوں نہیں کر پاتے۔ کیا انہیں ایک عام انسان کی طرح جینے کا حق نہیں ہے۔ اگر ماں باپ اپنی اولاد کے حق میں کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ جب ماں باپ اس بچے کو اپنانے کا فیصلہ کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے کو پلٹ نہیں سکتی۔ اپنی اولاد کے لئے ماں باپ کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔

جس معاشرے کو صرف تنقید کرنا مقصود ہو، جو اپنے الفاظ کے نشتروں سے لوگوں کے ہنستے بستے گھر اجاڑنے میں مہارت رکھتا ہو، ان کے کہنے پر اپنا جگر کا ٹکڑا پل پل مرنے کے لئے چھوڑ دینا کوئی افضل بات نہیں ہے۔ ان معصوم بچوں کے ہاتھوں میں بھی قلم پکڑا کر انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاؤں میں گھنگرو ڈالنے کے بجائے ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حکومت معذور بچوں کو خاص سہولیات مہیا کرتی ہے اور ان کے لئے الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں، ویسے ہی ان بچوں کے لئے بھی یہ اقدامات لیے جا سکتے ہیں۔ تا کہ کسی ماں کو اپنا جگر کا ٹکڑا خود سے جدا نہ کرنا پڑے۔ تا کہ کسی بہن کو اپنے بھائی یا بھائی کو اپنی بہن سے جدا نہ ہونا پڑے۔ تا کہ کسی باپ کو اپنی اولاد کو بے یار و مددگار نہ چھوڑنا پڑے۔ تا کہ کسی بچے کو اپنا پیٹ پالنے کے لئے برائی کے دلدل میں چھلانگ نہ لگانی پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments