جہادی دلہنیں: گوری سیج پہ، دلہا چنے کے کھیت میں


جہادی دلہنوں سے مراد ایسی خواتین ہیں جو شام میں لڑنے والے جہادی مردوں سے شادی کی غرض سے وہاں جاتی ہیں۔ اس ضمن میں پہلا سوال تو یہی ہے کہ ان کے دلہے کون ہیں؟ یہ جہادی دلہنیں کون ہیں؟ کہاں سے آئی ہیں؟

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ ایک وقت میں مغربی شام سے لے کر مشرقی عراق تک 88000 مربع کلومیٹر کے وسیع علاقے پر قابض تھی۔ جہاں اس نے تقریباً 80 لاکھ افراد پر بہیمانہ طریقے سے حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ تیل کے ذخائر، بھتہ خوری، راہزنی اور اغوا برائے تاوان سے ڈھیروں دولت کمائی۔ لیکن اب عراق سے متصل شامی سرحد کے قریب دریائے فرات کی وادی میں تقریباً 50 مربع کلومیٹر علاقے میں ان کی تعداد کم ہو کر 1000 سے 1500 کے درمیان رہ گئی ہے۔ لیکن اس جنگ کے ہولناک نتائج سامنے آئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

داعش اپنی سفاکی کے لیے مشہور ہیں۔ اپنے عقیدے اور سوچ کے پکے دنیا میں خلافت کے جھنڈے گاڑنے میں رات دن جنگ میں مصروف ۔ اور پھر یہ ہوا کہ ان جہادی سرفروشوں کو تنہائی کاٹنے لگی۔ انہیں آدم کی طرح حوا کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جو عورتیں شروع سے ساتھ تھیں کم پڑنے لگیں پہلا نشانہ عراق میں یزیدی مذہب والے بنے۔ ان کے مرد مار ڈالے گئے اور عورتوں کو جنسی غلام بنا لیا گیا۔ دس، گیارہ سالہ بچیوں کو بھی نہ بخشا۔ داعش کا لشکر بڑا ہو رہا تھا۔ ان کے لیے دلہنیں تلاش کی جانے لگیں اور اس کے لئے نہایت رازداری کے ساتھ پرچار شروع ہوا۔ یہ کام مغربی ممالک میں قدرے آسان ہوا کیوںکہ یہاں کی عورت آزاد ہے اور سفر کرنا بھی آسان تر ہے۔ زبردست پراپوگنڈا شروع کیا گیا۔ عورتوں کو متوجہ کرنے کے لیے خاص قسم کی ویڈیوز بنائی گیں اور خوب تشہیر کی۔ ہدف وہ مسلم لڑکیاں تھیں جو مغربی ممالک میں رہتی ہیں۔ ان سے رابطہ بھی آسان تھا لڑکیاں بھی انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی سے واقف بھی ہیں اور ان کی رسائی بھی ہے۔ داعش کے بڑے رہنماوں نے اعلان کر دیا کہ جنگجوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے چاہیں تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ ہو اور آنے والے وقت میں افرادی قوت میں کوئی کمی پیدا نہ ہو ۔

 آن لائن رابطوں کا کردار ان معاملات میں بہت اہم رہا ہے کیونکہ انٹر نیٹ پر رابطے اور بین الاقوامی سفر کا بندوبست کرنا اب بہت آسان ہو چکا ہے۔ اسلامی ڈیٹنگ ایپس کے ذریعے محبت کی تلاش، تصاویر کے تبادلے اور آن لائن چیٹ مقبولیت پانے لگی۔ اور لڑکیاں ان دیکھے اور انجانے رومانس میں مبتلا ہو گیں۔

سن 2012 میں سینکڑوں کی تعداد میں کم سن لڑکیوں اور نوجوان عورتوں نے دولت اسلامیہ میں شرکت کی غرض سے ترکی کے راستے عراق اور شام کا سفر طے کیا۔ ان میں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، فرانس، ہالینڈ، روس، سویئڈن اور ناروے کی عورتیں بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان ممالک سے خواتین دولت اسلامیہ میں شامل ہونے جا کیوں رہی ہیں؟

مغربی ملکوں میں رہنے والے خاندان پہلے ہی ایک خاص قسم کے معاشرتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ بچوں کو محدود اور سخت ماحول میں رکھنا، روک ٹوک اور بے جا تنقید انہیں بے زار کر دیتی ہے۔ لڑکیوں پر اضافی بوجھ ہوتا ہے کہ انہیں قدم قدم پر اپنی پاکیزگی اور مذہبی لگاؤ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ گھر سے باہر کی دنیا بھی انہیں اجنبی لگتی ہے۔ وہاں بھی وہ خود کو ایک الگ مخلوق سمجھتی ہیں۔ نوجوانوں میں ایک طرح کا غم و غصہ آجاتا ہے۔ مساجد اور گھر میں مغربی معاشرے کی برائیاں بیان ہوتی رہتی ہیں۔ اور مسلمانوں کی ہر محرومی اور پستی کا قصور مغرب کے سر تھوپا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک بالکل نیا ایڈونچر نئی آیئڈیولوجی کا تصورالجھے ہوئے نوجوانوں کو بہت بھایا۔ ایک اور طرح کی زندگی جہاں وہ اپنے لباس، حلیہ اور رنگت کی بنا پر کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں گی۔ اور جہاد کے ثواب کا الگ سے لالچ۔ کیا یہ سب نوجوان لڑکیاں داعش جنگجو بننے کی خواہش رکھتی ہیں یا یہ صرف کسی ہیرو قسم کے لڑاکا مرد کے رومنس کے شوق میں یہ بڑا قدم اٹھا رہی ہیں؟ کیا واقعی یہ پندرہ، سولہ، اٹھارہ سالہ لڑکیاں شریعت اور اسلام کے بارے میں کامل علم رکھتی ہیں؟ کیا وہ دولت اسلامیہ کے آئین کو جانتی اور سمجھتی ہیں؟

یہ بات بھی سو فیصد درست نہیں کہ یہ ساری عورتیں کم تعلیم یافتہ تھیں۔ کیونکہ شام جانے والی ان نوجوان لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با شعور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

یہاں ذکر کچھ ناروے سے شام کا سفر کرنے والی لڑکیوں کا۔ خبریں یہ ہیں کہ کم سے کم دس خواتین ناروے سے شام گئی ہیں۔ اور ان کی اکثریت اب شدید مشکالت کا شکار ہیں۔ اوسلو سے ذرا ہی دور ایک شہر ہے بیروم وہاں سے دو نوجوان لڑکیاں جن کے خاندان کا تعلق صومالیہ سے ہے فرار ہو کر شام پہنچ گیں۔ دونوں بہنیں ہیں۔ ایک 19 سال کی دوسری 15 سال کی۔

سن 2013 میں یہ دونوں بہنیں گھر سے فرار ہو کر ترکی کے راستے شام پہنچ گیں۔ یعنی جس جنگ، خانہ جنگی ، دہشت اور وحشت سے ان کے خاندان والوں نے بچنے کے لیے ناروے میں پناہ لی یہ بچیاں اسی دہشت اور وحشت کو اپنی مرضی اور خوشی سے اپنا رہی ہیں۔ ان لڑکیوں کے والد نے انہیں واپس لانے کی کوشش کی اور کئی بار شام کا سفر کیا لیکن ناکام رہے۔ وہاں دونوں کا داعش کے جنگجوں سے نکاح ہوا۔ ایک بہن کی ایک بیٹی اور دوسری کی دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں کے شوہر جنگ میں مارے گئے اور دونوں بیوہ ہو چکی ہیں۔ شام کے شمال مشرق میں ال ہول نامی مہاجرین کا کیمپ ہے۔ جہاں یہ اور ان جیسی سینکڑوں عورتیں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ناروے کے اخبار آفتن پوستن کا ایک اسی کیمپ میں ان سے جا کر ملا۔ دونوں بہنیں وہاں مشکل حالات میں زندگی گذار رہی ہیں۔ جس وقت رپورٹر ان سے ملا تھا اس وقت ایک کی عمر 25 سال اور دوسری کی 22 سال تھی۔

اب دونوں چاہتی ہیں کہ کیونکہ ان کے بچے ناروے کے شہری ہیں اس لیے بچوں کو ناروے آنے کی اجازت ملنی چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔ اور ان بچوں کی ماں ہونے کی نسبت سے انہیں بھی واپس ناروے آنے کا حق ملنا چاہیئے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے والدین ، بھائی بہن اور ناروے کے قدرتی مناظر کو یاد کرتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا وہ وہاں دوسروں کی مدد کرنے گئی تھیں وہ وہاں کھانا پکانے اور برتن، کپڑے وغیرہ دھونے اور بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی تھیں۔ اپنے بچوں کے علاوہ وہ پانچ دوسرے بچے بھی سنبھالتی تھیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ جس اسلامی ریاست کی خاطر یہاں آئی تھیں اس کے بارے میں اب ان کا کیا خیال ہے۔ دونوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

ناروے سے چند پاکستانی/ نارویجین عورتیں بھی شام پہنچ گیں۔ نیت یہی تھی کہ وہاں مرد جنگجوں کے شانہ با شانہ ہتھیار اٹھائے بے جگری سے لڑیں گی۔ انہی میں ایک عائشہ شہزادی بھی ہے جس کا نام میڈیا میں آ گیا ہے اس لیے یہاں لکھا جا رہا ہے۔ یہ کہانی کچھ عرصہ تک خبروں میں تواتر کے ساتھ جگہ پاتی رہی۔ عائشہ کی شادی پہلے عرفان بھٹی نامی نارویجین/ پاکستانی سے ہوئی۔ دونوں کا ایک بیٹا ہوا۔ یہ شروع ہی سے شدید پردے اور نقاب کی حامی رہی اور ناروے کی اسکولوں میں جا کر پردے پر گفتگو بھی کرتی رہی۔ اسلامی خلافت کی پرزور حمایتی تھی۔ عرفان بھٹی بھی ایک انتہا پسند اور ایک نئے گروپ انصار الحق کا فعال رکن تھا۔ اور اس پر افغانستان میں انتہا پسندوں سے میل جول رکھنے کا الزام بھی ہے۔ سن 2012 میں پاکستان/ افغانستان گیا اور وہیں سے اس نے شہزادی کو طلاق بھیج دی اور شہزادی اپنے دو سالہ بچہ کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہو گئِی۔ وہاں اس نے ایک ناوریجین سے نکاح کیا جو مسلمان ہو گیا تھا اور جہاد کے شوق میں داعش کی فوج میں شامل ہو اور جلد ہی اس کا شمار کے بڑے کمانڈروں میں ہو گیا۔ یہ بھی ہلاک ہو گیا تو عائشہ شہزادی نے تیسرا نکاح ایک تیونس کے باشندے سے کیا۔ اور اس سے ایک بیٹا ہوا۔

ناروے کا قانون اور حکومت اس بات کو مانتی ہے کہ بچے چونکہ ناروے کی شہریت رکھتے ہیں اس لیے وہ واپس آ سکتے ہیں۔ لیکن ان کی مائیں جو جنگی جرائم میں ملوث رہ چکی ہیں ان کی واپسی کی اجازت ممکن نہیں۔ عائشہ بھی واپس آنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے بچوں کو ناروے آنے کا حق ہے۔ اور بچوں کی ماؤں کو بھی آنے دیا جائے بچوں سے ان کی ماؤں کو الگ کرنا بدترین ظلم ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان عورتوں کو واپس لانے کے لیے کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ عورتیں خود سے واپس آ بھی جائیں تو انہیں مقدموں کا سامنا کرنا ہوگا۔

ایک اورپاکستانی / نارویجین عورت کی کہانی جو پچھلے دنوں خبروں کی سرخی بنی رہی۔ وہ ایک ماں اور اس کے دو بچوں کی ہے۔ یہ عورت بھی داعش کی ہمدردی میں شام جا کر اس میں شامل ہو گئی۔ بیوہ ہوئی اور مہاجرین کے کیمپ ال ہول میں پناہ حاصل کی۔ اس عورت کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹا بیمار ہے اور اس نے ناروے کی حکومت سے التجا کی کہ بچے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر واپس آنے دیا جائے تاکہ اس کا مناسب علاج ہو سکے۔ حکومت نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ بچہ واقعی ایک پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے جو جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔

حکومتی پارٹی کا ماننا تھا کہ بچے کی جان بچانے کے لیے ماں اور بچوں کو واپس لایا جائے۔ لیکن حکومت کی اتحادی پارٹی ایف۔ آر ۔ پے نے جو شدید دائیں بازو کے رجحانات رکھتی ہے، اس فیصلے سے شدید اختلاف کیا۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کے سخت مخالف ہیں کہ ان لوگوں کو جو دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں کسی بھی صورت واپس بلا لیا جائے۔

حکومت نے بالآخر ماں اور دونوں بچوں کی واپسی کا انتظام کیا۔ انہیں واپس لایا گیا۔ اب بچے کا علاج ہو رہا ہے اور ماں کو مقدمے کا سامنا ہے وہ اپنے وکیل کی مدد سے کیس لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔

ال ہول کا یہ کیمپ عراقی کردوں کے زیر کنٹرول ہے۔ یہ کیمپ ایک عجیب وحشتناک تصویر بنا ہوا ہے۔ یہاں سر سے پیر تک سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس چہرے پر نقاب ڈالے عورتیں سرگرداں پھرتی ہیں۔ اور ان کی انگلیاں تھامے، دامن پکڑے روتے بلکتے سسکتے بچے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا ان کے پاس وہ آخری سہارا جسے امید کہتے ہیں باقی بچا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments