سبسڈی (زر تلافی) ہے کیا بلا؟


ہم پاکستانی ایک بات بہت شدت یا کثرت کے ساتھ سنتے چلے آ رہے ہیں کہ حکومت فلاں فلاں اشیا پر سبسڈی (زر تلافی) ادا کرتی ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے لیکن پہلی مرتبہ موجودہ حکومت نے یہ واضح اعلان کیا کہ آئندہ حکومت کسی بھی شے پر کسی بھی قسم کی کوئی سبسڈی (زر تلافی) ادا نہیں کرے گی۔

یہ سبسڈی (زر تلافی) ہے کیا بلا، اس پر شاید عام فرد کا دھیان کم ہی گیا ہو۔ ویسے بھی مشکلات اور آزمائشوں میں گھرے عوام کو اس جانب سوچنے کا موقع ہی کب ملتا ہے۔ اسے تو بس خبر ہے تو یہ ہے کہ کل پیٹ بھرنے کے لئے اگر اس نے چار سو روپوں کی اشیائے خورد و نوش خریدی تھیں تو آج وہ بصد مشکل پانچ سو روپوں میں ہی خرید پائے گا۔

گزشتہ حکومتوں کا دعویٰ تھا تھا کہ وہ بہت ساری اشیائے خردو نوش اور ضرورت کی بہت ساری چیزیں کاشتکاروں، کارخانہ داروں یا ملک سے باہر سے خرید کی جانی والی اشیا مہنگے داموں خریدتی ہیں لیکن ان کو بازار میں ان کی اصل قیمت خرید سے بھی سستے داموں فروخت کیا کرتی ہیں۔ با الفاظ دیگر حکومتیں بیشمار اشیا پر سبسڈی (زر تلافی) ادا کرتی ہیں تاکہ تاجروں، زمینداروں اور کارخانہ داروں کو بھی نقصانات سے بچائیں اور عوام کو بھی مہنگائی کے پہاڑ تلے مزید دبنے سے محفوظ رکھیں۔

ایسی اشیا میں جہاں بیشمار صنعتی اور زرعی پیداوار شامل ہوا کرتی تھی وہیں پٹرولیم مصنوعات یعنی ڈیزل، پٹرول، مٹی کا تیل، گیس جیسی اشیا کے علاوہ بجلی جیسی ضروری چیز بھی شامل تھی۔ گزشتہ حکومتوں کے دعوے عوام کی سمجھ میں بالکل بھی نہیں آتے تھے کہ وہ سیکڑوں اشیا مہنگے داموں خرید کر عوام کو سستے داموں فروخت کرتی ہو نگی کیونکہ سبسڈی (زر تلافی) دینے کے دعوؤں کے باوجود ہر سال قیمتوں میں بڑھوتری ایسے سارے دعوے مشکوک بنا دیا کرتی تھی لیکن جب سے موجودہ حکومت آئی ہے تو لوگوں کو گزشتہ ساری حکومتوں کے ان سارے دعوؤں کا نہ صرف یقین آ گیا ہے بلکہ ہوشربا مہنگائی نے ان کی آنکھیں اپنے حلقوم سے باہر نکال کر رکھ دیں ہیں۔

موجودہ حکومت نے آتے ہی جو اعلان سب سے پہلے کیا وہ یہی تھا کہ اب حکومت کسی بھی شے پر وہ سبسڈی (زر تلافی) کبھی ادا نہیں کرے گی جو گزشتہ حکومتیں ادا کیا کرتی تھیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں کو پر لگے دیکھ کر ان ناسمجھ عوام کو جو ہر کس و ناکس سے سبسڈی (زر تلافی) کا مطلب پوچھا کرتے تھے، مطلب ایسا سمجھ میں آ گیا کہ شاید اس کی معنی و مطالب وہ قیامت تک فراموش نہ کر سکیں۔

گزشتہ حکومتیں جن جن اشیا پر سبسڈی (زر تلافی) ادا کرنے کا دعویٰ کیا کرتی تھیں، ان تمام اشیا کی قیمتیں دیکھتے دیکھتے آسمان سے باتیں کرتی نظر آئیں اور عوام جو گزشتہ حکومتوں کے دعوؤں کو خام خیال کیا کرتے تھے، انھیں بھی دونوں ہاتھ جوڑ کر یہ کہنا پڑ گیا کہ ”ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا“ ۔

مسئلہ یہ ہے اب چڑیائیں سارے کے سارے کھیت چگ چکی ہیں۔ وہ ساری سبسڈیاں (زر تلافیاں ) بند ہو چکی ہیں جس کا فائدہ عوام کا نصیب ہوا کرتا تھا البتہ ان ساری سبسڈیوں (زر تلافیوں ) کا رخ بڑے بڑے مل اونرز اور زمینداروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے تاکہ ان کے پیٹوں کا گھیرا مزید وسیع سے وسیع تر ہو سکے۔

سبسڈی (زر تلافی) دینے کے کچھ مقاصد ہوا کرتے ہیں جس میں ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کو مہنگائی کے مزید دباؤ سے بچایا جا سکے۔ اسی لئے حکومت بیشمار ضروری اشیا متعلقہ اداروں اور افراد سے مہنگے داموں خرید کر بازار میں مناسب داموں فروخت کیا کرتی ہے۔ حکومت کا مقصد ایک جانب عوام کو آسائش فراہم کرنا ہوا کرتا ہے تو دوسری جانب ملک کی صنعتوں، زرعی پیداوار میں شریک زمینداروں کو نقصانات سے بچا بھی ہوتا ہے لیکن سبسڈی (زر تلافی) دینے کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں استحکام بنیادی شرط ہوا کرتا ہے جو سبسڈی (زر تلافی) دینے کی وجہ سے اکثر کئی کئی سال دیکھنے میں آتا رہا ہے لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ سبسڈی (زر تلافی) نہ دینے کے اعلان کے ساتھ ہی مہنگائی کا تیر جس طرح عمودی پرواز کرتا نظر آیا اس کے بعد مل اونرز، کارکانہ داروں اور زمینداروں کو سبسڈی (زر تلافی) کا ادا کیا جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس کو تاریخ میں تاریک ترین باب میں درج کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ساری اشیا کی قیمتوں کو 50 فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دیا گیا تھا تو کیا سبسڈی (زر تلافی) دینے کا کوئی جواز بنتا تھا؟

یہ ہے وہ بنیادی سوال جو موجودہ حکومت کو بہر لحاظ دینا پڑے گا اور وہ اس لئے بھی کہ اس حکومت کے دعوے اس ساری صورت حال کے بر خلاف تھے اور اگر جواب نہ دیا گیا تو تاریخ کسی صورت موجودہ حکمرانوں کو معاف نہ کر سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments