امریکا اور نسل پرستی


امریکا میں نسل پرستی کی جڑیں کالونیل عہد تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جب گورے امریکیوں کو قانونی اور سماجی طور پر ایسے حقوق اور رعایتیں میسر تھیں، جن کا سیاہ فام امریکی تصور نہیں کر سکتے تھے۔ امریکا کی تاریخ میں سیاہ فام نسل نے ہمیشہ سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی میں رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے۔ اس میں نسل کشی، غلامی، نسلی امتیازات، علیحدہ اسکولنگ اور ان جیسی بہت سی رکاوٹیں شامل تھیں۔ بیسویں صدی میں صورت احوال کچھ بہتر ہوئی لیکن اس کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔

نوکریوں، تعلیم، زمین کی خرید و فروخت اور حکومت سازی میں یہ نسلی امتیازات کسی نا کسی شکل میں موجود رہے۔ کچھ امریکیوں نے قوم کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوباما، جو کہ 2009 ء سے 2017 ء تک صدر رہے، کو روشن خیالی اور نسلی امتیازات کے خاتمے کی علامت سمجھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے پر ان لوگوں کی خوش فہمی کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب سی این این کے خبر نگار وین جونز نے ٹرمپ کے الیکشن کو سفید فاموں کا الیکشن قرار دیا۔

جارج فلائڈ کا حالیہ واقعہ جس نے پورے امریکا میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے، کو بھی اسی تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بی بی سی نیوز کے مطابق اصل واقعہ کچھ اس طرح ہے :

یہ واقعہ امریکا کی ریاست منی سوٹا کے شہر مینیا پولس میں شام 25 مئی کو پولیس کو موصول ہونے والی جعلی بیس ڈالر کے نوٹ کی رپورٹ سے شروع ہوا، جب مسٹر فلائڈ نے کپ فوڈز کے گروسری اسٹور سے ایک پیکٹ سگریٹ خریدنے کے عوض بیس ڈالر کا نوٹ دیا۔ اسٹور پر کام کرنے والے کارکن نے اس نوٹ کو جعلی جان کر پولیس کو شکایت کر دی، جس پر پولیس نے مسٹر فلائڈ پر چڑھائی کر دی۔ حالانکہ اسٹور مالک مسٹر مائیک کے بعد میں دیے جانے والے بیان کے مطابق مسٹر فلائڈ ان کی دکان کا مستقل گاہک تھا اور دوستانہ طبیعت کا مالک تھا اور جس نے کبھی کوئی مسئلہ کھڑا نہ کیا تھا۔ وقوعہ کے وقت مسٹر مائیک اسٹور پر نہیں تھے۔

دکان پر کام کرنے والے کارکن کے مطابق اس نے مسٹر فلائڈ سے سگریٹ واپسی کا مطالبہ کیا لیکن مسٹر فلائڈ نے اسے پیکٹ واپس نہ کیا۔ کارکن نے یہ بھی بتایا کہ مسٹر فلائڈ شراب کے نشے میں تھا اور اپنے کنٹرول میں نہ تھا۔

مسٹر لین وہ پہلا پولیس اہلکار تھا جو اپنے ساتھی کے ساتھ مسٹر فلائڈ کے پاس پہنچا اور اسے گن پوئنٹ پر لے کر ہتھکڑی لگادی۔ اس نے مسٹر فلائڈ کو بتایا کہ جعلی کرنسی چلانے کی مد میں یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ مسٹر فلائڈ نے اس کا انکار کیا۔ پولیس اہلکاروں نے مسٹر فلائڈ کو گاڑی میں بند کرنا چاہا جس پر مسٹر فلائڈ زمین پر گر گیا اور وضاحت کی کہ وہ کلاسٹروفوبیا کا مریض ہے اور اسے بند جگہوں سے خوف آتا ہے۔ اسی اثنا میں وہاں پولیس افسر مسٹر شاون بھی آ گیا۔

مسٹر فلائڈ اس وقت منہ نیچے کیے زمین پر پڑا تھا اور اسے ہتھکڑی بھی لگی ہوئی تھی۔ یہی وقت تھا جب ایک گواہ نے اس واقعہ کی ویڈیو بنانا شروع کر دی، جو کہ بہت کم وقت میں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔ مسٹر شاون نے آتے ہی اپنا بایاں گھٹنا مسٹر فلائڈ کی گردن پر رکھ دیا۔ مسٹر فلائڈ چلاتا رہا کہ وہ سانس نہیں لے سکتا لیکن مسٹر شاون نے آٹھ منٹ اور چھیالیس سیکنڈ تک مسٹر فلائڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے کا زور دیے رکھا۔ حالانکہ چھے منٹ کے بعد مسٹر فلائڈ بے ہوش ہو چکا تھا۔ جب مسٹر شاون نے اپنا گھٹنا ہٹایا تو مسٹر فلائڈ بے حس و حرکت پڑا تھا۔ بعد میں اسے ہینی پن کاؤنٹی میڈیکل سنٹر لے جایا گیا، جہاں ایک گھنٹے بعد اس کی موت کا اعلان کیا گیا۔

کرسٹوفر ہیرس جو کہ مسٹر فلائڈ کا سب سے قریبی دوست تھا، نے بیان دیا کہ مسٹر فلائڈ سے جعل سازی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ جس طرح اسے مارا گیا، عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ وہ اپنی زندگی کی بھیک مانگتا رہا لیکن کسی نے اس پر رحم نہیں کیا۔ یہ ہمارے نظام کی شکست ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جس نظام میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ ہمارے لئے نہیں بنا۔ انصاف کا حصول ہمارے لئے امریکا میں رہتے ہوئے بھی ایک خواب ہے۔

امریکا میں مسڑ فلائڈ کی دردناک موت کے بعد پر تشدد فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، جس نے نیویارک، اٹلانٹا، اوکلینڈ، ڈلاس اور بہت سے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منیا پولس میں تو نوبت کرفیو تک پہنچ گئی ہے اور بہت سی جگہوں پر آگ لگا دی گئی ہے۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور مرچوں والی اسپرے کا استعمال بھی کیا لیکن مظاہرے پھر بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

جارج فلائڈ کے وکیل کے مطابق مسٹر فلائڈ کو سوچ سمجھ کر قتل کیا گیا۔ دنیا بھر میں امریکی سماجی نظام پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور دنیا بھر کے لوگ امریکی سیاہ فام نسل سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے یہ واقعہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ابھی تک ایسے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں، جس میں امریکی نظام انصاف پولیس والوں کو سزا دینے میں ناکام رہا ہے۔ جارج فلائڈ کا کیس آئندہ تشکیل پانے والے امریکی سماجی نظام کے انسانی پہلو کو واضح کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments