چاند اور چاند چہرے دکھی کیوں کرتے ہیں؟


یہ 1969 ء کی بات ہے جب نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا تو رات کو دنیا ٹی وی پر امڈ پڑی تھی۔ اگلی صبح میں پرانی انار کلی سے پنجاب یونیورسٹی جا رہا تھا دکاندار دکانیں کھول رہے تھے تو ایک باریش دکاندار نے سڑک کے دوسری طرف کھڑے مولوی صاحب سے طنزیہ لہجے میں پوچھا مولانا! رات آپ نے چاند پروگرام دیکھا تھا؟ مولوی موصوف نے تاریخی الفاظ بولتے ہوئے کہا، ”سب بکواس تھی اتنے پیارے چاند پر کون جا سکتا ہے۔ جسے ایک اشارے سے دو ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ یہ سب یہودیوں کا پروپیگنڈا ہے“ ۔ میں جو رات پروگرام دیکھ کر بڑا جذباتی ہو رہا تھا یہ سن کر کچھ شش و پنج میں پڑ گیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہو۔

چاند ازل سے ہی بنی نوع انسان کے لئے پریشانی کا موجب بنا رہا، اسی لئے ایک زمانہ تک انسان اس کو پوجتا رہا یہ اس کے لئے مقدس آسمانی قوت تھا۔ شاعر اور ادیب اس کے حسن کے اسیر رہے اور اس کے جلوؤں اور تابانیوں کے نشے میں عمر بھر رہے شرابی سے۔ لیکن ساتھ ہی جب اس کو گرہن لگتی تو دکھی ہو جاتے کہ اب کوئی بلا ان پر نازل ہونے والی ہے۔ چاند کا ایک اپنا حسن تھا جب مصنوعی روشنیوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا چنانچہ جب رات کو چاند نکلتا اور آہستہ آہستہ اپنی روشنی بکھیرتا تو اندھیرے سمٹتے چلے جاتے ہر سو روشنی پھیلتی جاتی سبزہ، اشجار، آسمان، عمارتیں اس کے نور میں دھلتی چلی جاتیں آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی اور چاند کے ملکوتی حسن سے دل کو طمانیت کا احساس ہوتا اس لیے چاند کو حسن اور دلکشی کا معیار قرار دیا گیا اور چاند چہرے حسن کا استعارہ بن گئے۔

لیکن ہم مسلمانوں کے لئے چاند کی اہمیت تھی تو صرف اس کی رویت ہلال کی اور ظہور کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ اس کی رویت سے ہماری خوشیاں اور غم وابستہ تھے۔ اب بھی ہمارا کیلنڈر اسی پہ انحصار کرتا ہے۔ ہماری عیدیں، شب براتیں ہمارے ماہ و سال اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے روایت ہلال ہی صدیوں سے ہمارا مسئلہ رہی ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ چاند کی ہئیت اور وجود کیا ہے ہمیں نہ آسمان میں اس کی گردش سے واسطہ ہے نہ اس کی ذاتی یا مستعار روشنی کی فکر ہے ہمارے لیے تو چاند آسمان کی چادر پر ستاروں کے جلو میں ٹانک دیا گیا روشنی کا ایک فانوس ہے۔

جس طرح کی پریشانیاں فلاسفروں اور سائنسدانوں کو لاحق ہیں ہماری بلا سے وہ جو اقبال نے کہا ہے ”یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ“ ۔ یہ پیغام ہمارے لئے نہیں بلکہ ان سائنسدانوں کے لئے ہے جن کو آسمانوں میں تھگلی لگانے کا بیکار شوق ہے۔ وہ ہر وقت ان خیالات میں سرگرداں رہتے ہین کہ وہ افلاک پر نظر رکھیں ستاروں اور سیاروں کی حرکت کا جائزہ لیں اور چاند پر کمند پھینکنے کے منصوبے بنائیں اور ہر وقت چاند کو مسخر کرنے کے خواب دیکھیں۔

چونکہ سائنسدانوں کا مقصد حقائق کی تلاش ہوتی ہے اور ان کی سوچ کا محور سائنسی مہارت اور تکنیکی اہلیت پر ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اسی مہارت کے سہارے چاند کی رویت سے بڑھ کر اس کو مسخر کرنے کی لا متناہی سر گرمیوں کا آغاز کر دیا۔ جہاں ہمارے علماء کے گروہوں کے درمیان چاند دیکھنے کے اعلان کی دوڑ اور نہ ختم ہونے والا خلفشار پیدا ہوا وہاں دو عالمی طاقتیں چاند کو سر کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے پر کمر بستہ ہو گئیں۔ اس طرح ان کے اور ہمارے نقطہ ہائے نظر میں بعد المشرقین کا فرق پیدا ہوا انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا ہم اپنے مذہبی رہنماؤں کے جوتے سیدھے کرنے میں لگے رہے اور اپنا سفر کھوٹا کرتے رہے۔

روس نے سب سے پہلے خلا میں لائیکا نامی کتیا روانہ کی پھر یوری گیگارین تھا جس نے 1961 ء میں دنیا کے پہلے خلا نورد کا ٹائٹل حاصل کیا 1963 ء میں ویلنٹینا نے پہلی روسی خاتون خلا نورد کا اعزاز حاصل کیا جس نے کتنی خوبصورت بات کی تھی کہ خلا سے زمین کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ زمین کس قدر خوبصورت ہے ہمارے اس خوبصورت سیارے کو انسانی سرگرمیوں، آگ اور جنگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں چاہیے اس کو محفوظ رکھیں۔ جہاں اوپر پہنچ کر ایک خلا نورد کو بہت بڑی طمانیت کا احساس ہوتا ہے وہاں پھر اسی زمین کی یاد بھی بہت پریشان کرتی ہے اور جب انسان واپس آتا ہے تو اس زمین کو بوسہ دینے اور اس سے لپٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جنگوں میں اپنی دولت ضائع نہ کریں بلکہ اس کی بجائے زمین کے حسن کو نکھاریں۔

اس سارے عمل اور ساری کشاکش کو امریکی خلانورد نے انجام تک پہنچایا 1969 ء میں امریکی خلا نورد نیل آرم سٹرانگ نے ان الفاظ کے ساتھ کہ ”چھوٹا سا یہ انسانی قدم انسانیت کی بہت بڑی جست ہے“ چاند پر پہلا قدم رکھا جو کائنات کی تسخیر میں ایک سنگ میل ہے آپ اس کی بڑائی ملاحظہ کریں جب اس سے کہا گیا کہ آپ کیسے محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے نقش قدم چاند پر ہزار سال تک موجود رہیں تو اس نے کہا ”لیکن میری خواہش ہے کہ کچھ عرصہ بعد کوئی اور مہم جو چاند پر پہنچ کر میرے نشانات کو مٹا دے یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہوگا“ ۔

اس کی برسی پر امریکی صدر اوباما نے کہا آرم سٹرانگ کی مہم نے ثابت کر دیا کہ جہاں اس کی مہم میں پورے ملک کی امنگیں شامل تھیں وہاں دنیا نے دیکھا کہ امریکی وژن کس قدر ارفع و اعلی ہے اور امریکی اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور وہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

انڈیا دنیا کا چوتھا ملک تھا امریکہ روس اور چین کے بعد جس نے چاند پر اترنا چاہا پچھلے سال اس نے چاند کے جنوبی پول پر اترنے کی کوشش کی جہاں اب تک کوئی نہیں جا سکا تھا۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پانی موجود ہے مشن تمام مراحل کامیابی سے طے کرتا آگے بڑھ رہا تھا دنیا کی نگاہیں اس پر لگی تھیں لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھیں دل دہل رہے تھے صرف دو کلو میٹر کا فاصلہ باقی تھا اور چند لمحوں میں طے ہونا تھا جب اس مشن کا رابطہ سائنسدانوں سے منقطع ہو گیا۔ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہوتے یہ مشن ناکام ہو کر دکھی کر گیا۔ بھارتی خلائی ادارے اسرو کا چیئرمین ڈاکٹر سیون دکھ کی شدت سے پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا اور وزیراعظم اسے گلے لگا کر دلاسا دیتے رہے۔

یہاں یہ حال ہے کہ چاند دیکھنے پر علماء فیصلہ نہیں کر پا رہے ہماری ذہنی پژمردگی کی ایک عجیب تاریخ ہے کبھی رات گئے چاند کا اعلان ہوتا کبھی روزہ تڑوا کر عید کا اعلان ہوتا رہا کبھی 28 کے روزہ پر عید منائی گئی کبھی 29 پر فیصلہ نہ ہو سکا بیسویں صدی عبور کر کے بھی خلفشار وہیں کا وہیں ہے جب سے فواد چودھری نے سائنسی نقطہ نظر سے چند دن پہلے ہی چاند کے ظہور کا اعلان کر دیا تھا تو مذہبی طبقے کو یہ بات اچھی نہیں لگی اسے اختیارات اور معتبری کی زمیں اپنے پیروں سے کھسکتی دکھائی دی بھلا کوئی پوچھے کہ جو ادارہ کئی سال پہلے چاند گرہن اور سورج گرہن کا دن اور وقت بتا دیتا ہے اس کے لئے چاند کے طلوع ہونے کا بتانا کیا مشکل ہے اور جب چاند دیکھنے کے لئے مفتی اعظم منیب الرحمن بڑی بڑی پاور فل دوربینوں کے اندر جھانک رہے ہوتے ہیں تو پھر انہی دوربینوں کا ماہر محکمہ ہی چاند کی رویت کا اعلان کیوں نہ کرے اب خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہ کل یہ معتبری محکمۂ فلکیات کو نہ دے دی جائے مفتی اعظم نے ایک نیا پتہ پھینکا کہ چاند کے اعلان سے پہلے یہ بتایا جائے کہ ”فواد چوہدری نے رمضان المبارک میں کتنی نمازیں پڑھی ہیں اور کتنے روزے رکھے ہیں“ ۔

ماشا اللہ چاند دیکھنے کو بھی بریکٹ کر دیا گیا ہے کسی شخص کے نمازی، حاجی اور روزہ دار ہونے کے ساتھ۔ اور جہالت کی انتہا ہے کہ خلائی تحقیق اور محکمہ فلکیات کا مجرد اعلان اس وقت تک قابل اعتماد نہیں جب تک مشرف بہ اسلام نہ ہو جائے۔ اوریا جان مقبول نے کمزور اور غیر متعلقہ روایات کا شد و مد سے حوالہ دے کر ایک نئی راگنی چھیڑی ہے کہ مسلمانوں کی حکومت جب تین براعظموں پر قائم تھی تو ایک ہی عید ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی چاند دکھائی دے جائے پوری دنیا میں اسی دن عید منا لی جائے انہوں نے دنیا میں اوقات کے فرق کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ کہیں دن ہو گا تو دنیا میں کہیں رات ہو گی لیکن اس جذبہ جنون کا کیا کیا جائے جو تھمنے میں نہیں آ رہا مقصد اپنی ڈیڑھ فٹ کی علیحدہ مسجد بناکر اس اختلافی خلیج کو مزید بڑھانا اور وسعت دینا ہے اور مستقل فساد برپا کیے رکھنا ہے

مسلم یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم میں بطلیموس فلکیات رائج رہی جس میں کائنات کا مرکز زمین ہے۔ 1982 ء میں مدینہ یونیورسٹی کے صدر شیخ عبدالعزیز ماز کو جس کتاب پر ایوارڈ دیا گیا اس کا ٹائٹل ہے ”شمس و قمر کی حرکت اور زمین کا سکون“ کہ زمین کائنات کا محور ہے جس کے گرد شمس و قمر گردش کرتے ہیں اور ساتھ ہی دھمکی دی گئی کہ اس نظریے کی جو مخالفت کرے گا اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا جائے گا۔

اگرچہ سائنس نے زمانہ قدیم کے اوہام مٹا کر ہمیں ایک نیا شعور بخشا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے اسلامی ممالک خاص طور پر پاک و ہند میں سائنس کو کافرانہ مضمون سمجھا جاتا رہا ہے اور مولوی نے صدیوں مسلمانوں کو انگریزی زبان اور سائنس کے کافرانہ مضامین پڑھنے سے دور رکھا اور آج بھی تمام مدارس میں سائنس کا مضمون شجر ممنوعہ ہے آج کل ایک پیارے پیارے بھائیوں کا مذہبی گروہ بچوں کو ٹی وی پر یہی سبق دے رہا ہے کہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ زمین گردش کرتی ہے اور سورج ساکن ہے۔ بلکہ زمین ایک جگہ موجود ہے اور گول گول سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ جہالت غفلت اور ضد کی انتہا ہے۔ ہماری تمام تر سوچ کہانیوں روایات اور لاحاصل بحثوں کے گرد گھومتی ہے۔

جب میں ہلال عید کے متضاد دعوؤں اور جاہلانہ مناقشات اور بحثوں میں ہلال عید پر نظر کرتا ہوں تو انڈیا کے خلائی ادارے اسرو کے چیئرمین مسٹر سیون کا چہرہ میری نظروں میں گھوم جاتا ہے جس کے آنسو عین آخری لمحوں میں ناکامی پر رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور مجھے چاند پر قدم رکھتے ہی نیل آرم سٹرانگ کے الفاظ سنائی دیتے ہیں۔

“One small step for a man, one giant leap for mankind”
تو پھر ہلال عید کی نوک میرے سینے میں کھب جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments