اور امریکہ جل رہا ہے


اس وقت امریکہ میں جاری فسادات نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے اور ان حالات میں امریکہ کی پبلک کرونا نامی وبا کا خوف بھی شاید بھول چکی ہے۔

چھبیس مئی 2020 کو امریکہ کے شہر منیاپولس (منی سوٹا) کے ایک بے گناہ شہری جارج فلوئڈ کا پاور ہارن پولیس کے ہاتھوں ہونے والے مبینہ قتل کے نتیجہ میں جو احتجاجی فسادات شروع ہوئے، انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہاں تک کہ صدر ٹرمپ کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کو زیرزمین بنکر میں پناہ لینی اور وائٹ ہاؤس اندھیرا میں ڈوب گیا جس کی روشنیوں کل سے گل کر دی گئیں اور وہ تمام ریاستیں جہاں یہ مظاہرے کیے جا رہے ہیں وہاں حکومت کی طرف سے کرفیو لگانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

جارج فلوئڈ جس کا تعلق افریقی امریکیوں کی نسل سے تھا اس کے قتل نے امریکہ کے عوام میں غم و غصہ کی شدید لہر بھر دی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے اور اس بپھرے مجمع نے سب سے پہلے اس تھانہ پر حملہ کیا جس کے اہلکار نے زمین پر لیٹے جارج فلوئڈ پر بیٹھ کر اس کا سانس بند کر دیا، جبکہ مقتول مسلسل دہائی دے رہا تھا کہ پولیس کانسٹیبل کا وزنی گھٹنا اس کی سانس روکنے کا سبب بن رہا ہے۔ مگر افسوس طاقت کے نشہ میں دھت پولیس والے نے جارج کی ایک نہ سنی اور بالآخر وہ مر گیا جس کی موت کا خمیازہ اس وقت امریکہ کی بہت ساری ریاستیں بھگت رہی ہیں جب کہ مبینہ قاتل گرفتار ہو چکا ہے لیکن اس کی ایک غلطی سے پھوٹنے والے فسادات کی آگ پھیلتی ہی جا رہی ہے۔

مشتعل ہجوم کی طرف سے کیے جانے والے اس حملہ میں نہ صرف تھانہ کو آگ لگائی گئی بلکہ اس سے قبل مذکورہ تھانہ میں لوٹ مار بھی کی گئی اور تھانہ میں موجود کرنسی اور قیمتی اشیاء کو لوٹنے کے بعد تھانہ جلا دیا گیا۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر احتجاج کے نام پر جمع ہونے والا یہ ہجوم جو چند سو لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس کی تعداد بڑھ کر ہزاروں میں تبدیل ہو گئی اور اس احتجاجی فساد نے بہت ساری امریکی ریاستوں کو آنا فانا اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ یہ شروع ہی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سے ہوا جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید عوام کے اندر، حکومت کے خلاف کوئی فرسٹریشن تھی جو اس صورت میں نکل کر باہر آئی ہے۔

وجہ جو بھی ہو لیکن احتجاج کے نام پر کیے جانے والے ان مظاہروں میں حکومت کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بینک، دکانیں اور مارکیٹس کے تالے توڑ کر اندر موجود قیمتی سامان اور کرنسی لوٹ لی گئی اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔ پولیس اور عوام کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجہ میں اب تک سات افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع بھی ہے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہو جبکہ گرفتار مظاہرین میں ایک مشہور ہالی وڈ اداکار بھی شامل ہے۔

یعنی کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کے لئے قبل از وقت کچھ کہنا بے کار ہے لیکن یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ دہشت گرد صرف مسلمان قوم نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق اور نا انصافی کے خلاف کیا جانے والا احتجاج اور غم و غصہ شاید اسی طرح باہر نکلتا ہے جب کہ یہ طریقہ کار غلط ہے اور کسی مہذب قوم کا شیوہ نہیں کہ وہ احتجاج کے نام پر اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچائے اور توڑ پھوڑ کے ساتھ لوٹ مار بھی کی جائے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ایک وبائی مرض دنیا کو نگلنے کے لئے تیار ہو۔

لیکن جو بھی ہے۔ آج امریکہ جیسی سپر پاور ان حالات کا شکار ہے جن سے کبھی پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک دوچار تھا۔ آج امریکہ جیسی مہذب قوم وہ ہی رویہ اپنائے ہوئے ہے جو کسی زمانہ میں ہماری عوام کا تھا جنہیں جاہل اور دہشت گرد کہا گیا تو کیا اب یہ امریکن دہشت گرد نہیں ہیں جس ہم اسے ایک مہذب قوم کا مہذبانہ احتجاج قرار دیں گے؟

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments