ڈاکٹری کا دھندا


مملکت خداداد اور خان صاحب کی ریاست مدینہ میں ڈاکٹری سب سے بڑا دھندا بن چکا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی اسے خدمت خلق سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹرز معاشرے میں خوب تکریم پاتے ہیں۔ یہاں میں نے خان صاحب کی ریاست مدینہ کا نام دانستہ استعمال کیا ہے، کیوں کہ اس سے پہلوں سے ہمیں سروکار نہیں۔ ہمیں جو سبق بائیس سال پڑھایا جاتا رہا اس تناظر میں ذکر کیا۔

اس ملک کی اخلاقی پستی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ ڈاکٹر مریض کو اپنا کسٹمر سمجھتا ہے اور والدین اپنی اولاد کو فقط اس لیے ڈاکٹری پڑھانا چاہتے ہیں کہ بیماروں کے اس ملک میں اس کا سکوپ بہت زیادہ ہے۔ ناقص غذائیں، جعلی ادویات، آلودہ آب و ہوا، گندا پانی پی پی کر شاید ہی عوام میں کوئی ایسا بچا ہو جو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہو۔ لہٰذا اس دھندے کا چلنا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے پھلنا پھولنا اظہر من الشمس ہے۔ جس ملک میں اتائی بھی بڑی سے بڑی سرکاری جاب والے سے زیادہ کماتا ہو، اندازہ لگائیں وہاں ایک ایم بی بی ایس کی کس قدر اہمیت ہو گی۔ بھلے کسی کو طب میں دستگاہ حاصل ہے یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کلینک کی لوکیشن کیا ہے۔ بھلے آپ ایم بی بی ایس کا بورڈ لگا کر نہر کی پل پہ بیٹھ جائیں، عوام آپ کی طرف کھچے چلے آئیں گے۔ آپ دنوں میں لکھ پتی، ہفتوں میں کروڑ پتی اور مہینوں میں ارب پتی بن جائیں گے۔ پھر شاندار اسپتال کھولیں۔ ایم این اے سے افتتاح کروائیں اور مین گیٹ پر جلی حروف میں کلام پاک کی یہ آیت مبارکہ لکھوائیں:
واذا مرضت فھو یشفین
جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔

اسپتال بنے گا تو کوٹھی بھی ظاہر ہے بنے گی۔ اس پہ بھی جلی حروف میں لکھوائیں:
ھٰذا من فضل ربی

باقی اللہ اللہ خیر سلا۔ آخر کوئی تو اٹریکشن ہے کہ ہر آدم زاد کا یہ خواب ہے، اس کا بیٹا یا بیٹی ڈاکٹر بنے۔ شاید آپ نے نوٹ بھی کیا ہو کہ یورپ اور امریکا سے فارغ التحصیل یہ ڈاکٹر حضرات یورپ اور امریکا میں کیوں ٹھہرنے کو ترجیح نہیں دیتے اور واپس آ جاتے ہیں۔ جب کہ یورپ اور امریکا پہنچنا ہر کسی کا خواب ہے اور یہ چھوڑ کر واپس آ جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں ان کی وقعت کیا ہو گی۔ لوگ بہت کم بیمار ہوتے ہیں۔ غذائیں خالص ہیں۔ ڈاکٹری کی پریکٹس کے ایس او پیز سخت ہیں اور سب سے بڑھ کر ان میں وہ مطلوبہ قابلیت نہیں ہوتی۔

وہاں صرف ماہرین ہی ڈاکٹر بن سکتے ہیں اور یہاں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا ڈاکٹر بنا ہوا ہے۔ ستم ظریفی کی حد ہے گویا ایم بی بی ایس کی ڈگری قتل کرنے کا لائسنس ہے۔ فیس بٹورو۔ تشخیص تو کر نہیں سکتے۔ دو چار ٹیسٹ لکھ دو۔ مشورہ فیس الگ لو اور ٹیسٹوں کی مد میں الگ سے کھال اتارو۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا، جب تشخیص ٹیسٹ کے ذریعے ہو گی تو مشورہ فیس کس بات کی؟

ٹیسٹ نہ کروائیں تو تشخیص اس طرح کرتے ہیں کہ ایک مرض بتا کے دس قسم کی گولیاں سیرپ اور ٹیکے لکھ دیے۔ کوئی ایک تیر تو نشانے پہ لگے گا۔ جب ایک نشانے پہ لگتا ہے تو باقی آٹھ نو کسی نہ کسی نئے عارضے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے بالواسطہ ایک اور فائدہ یہ لیا جاتا ہے کہ جو منوں کے حساب سے لوکل دوائیاں پچھتر فی صد ڈسکاونٹ پہ لی ہوتی ہیں، وہ درج شدہ قیمت پہ بک جاتی ہیں۔ گویا پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ مشورہ فیس الگ۔ ٹیسٹوں کی فیس میں کمیشن الگ۔ اور دوائیوں کا کمیشن الگ۔ ضمیر مطمئن ہے کہ خدمت خلق کر رہا ہوں۔

میں لاہور سے اسلام آباد تک کے ڈاکٹرز کے پاس جا چکا ہوں۔ سب کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے۔ مجھے ابھی اس ڈاکٹر کا انتظار ہے جسے اپنے شعبے پر دسترس حاصل ہو۔ دکانیں تو خیر سے سب نے بنا اور سجا رکھی ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے بوجہ علالت ایک دوست کے مشورے سے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں یک دم چمک آ گئی، باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگے عارضہ عارضی نہیں اور لگے لکھنے۔ پلک جھپکنے میں کاغذ اس طرح بھر چکا تھا کہ اس پہ مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اندازہ تو اسی وقت ہو گیا کہ موصوف قابلیت کے کس اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا، وہ اعمال نامہ میڈیکل سٹور والے کو تھمایا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے گولیوں اور سیرپوں کا ڈھیر لگا دیا اور ساتھ فرمایا کہ صاحب ایک دوا باہر بازار سے ملے گی۔ یہ کل ملا کے کوئی دس کے قریب ادویات تھیں۔ جن کا وزن سیر سوا سیر تو ہو گا۔ قیمت مزدور کی چار پانچ دیہاڑیوں کے برابر۔ میں سوچ رہا تھا چلیں اللہ نے روزگار دیا ہوا ہے ادائیگی ہو گئی۔ اگر میری جگہ واقعی دیہاڑی دار مزدور ہوتا اس کا پانچ دن کاخون پسینا تو یہ پی گیا تھا۔

الحفیظ الامان۔ ویسے تو مملکت خداداد وہ اونٹ ہے جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں۔ مگر کہیں کہیں تو حالات زیادہ ہی بگاڑ کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر کی بلا سے مریض جائے بھاڑ میں۔ اس سے کوئی غرض نہیں۔ ڈرگ انسپکٹر آئے تو اس کی مٹھی گرم کر دو اور زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہو۔ پکڑے اس لیے نہیں جاو گے کیوں کہ آپ کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری کے نام پہ قتل کرنے کا لائسنس موجود ہے۔

ہم عجیب لوگ ہیں۔ ڈاکوؤں سے لٹنا ہمیں لٹنا لگتا ہے اور جو سفید جامے میں لپٹا اصل ڈاکو ہے جو دھیرے دھیرے لوٹتا ہے اور اجاڑ کے رکھ دیتا ہے وہ معاشرے کا معزز ترین فرد ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کی طرح پرائیویٹ کلینکوں اور اسپتالوں کا بھی ایک مافیا ہے اور یہ اتنا مضبوط ہے کہ حکومت ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ زیادہ کیسوں میں تو اب یہی لوگ الیکشن لڑ کے وزارتوں میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو کس سے منصفی چاہیں؟

سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی کے دوران میں جیسا چیک اپ ہو رہا ہوتا ہے، اس پہ کیا روشنی ڈالی جائے! حکومت اور عدالتیں ابھی تک سرکاری ڈاکٹرز کو اس بات کا پابند نہیں کر سکیں کہ وہ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے۔

گندگی کے اس تالاب میں سیکولر، مذہبی، داڑھی ٹوپی والے، نمازی، بے نماز، سب کے سب ننگے ہیں۔ غریب چھے سو کماتا ہے جب کہ ڈاکٹر صاحب کی فیس ہی ایک ہزار ہے۔ حکومت اب تک پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے ایس او پیز نہیں بنا سکی کہ زیادہ سے زیادہ فیس اتنی ہو گی۔ دس فی صد مریضوں کا فری چیک اپ لازمی ہو گا۔ ہر مریض کو اتنا وقت دینا لازم ہو گا۔ ٹیسٹ کی فیس اتنی ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی ملک میں نہیں بلکہ جانوروں کے باڑے میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی قاعدہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔

شاہد رضوان
Latest posts by شاہد رضوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments