صحت عامہ کا تحفظ، اقتصادی سماجی ترقی کی ضمانت


عالمی سطح پر نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں اور دنیا بھر میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تریسٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات کی تعداد بھی تین لاکھ اسی ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ یہاں خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ صحت یاب افراد کی تعداد بھی ستائیس لاکھ سے زائد ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں نوول کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن سمیت دیگر پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی مزید معاشی نقصانات سے بچنے کی خاطر پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ امریکہ کو اس وقت نوول کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کے وائرس کا بھی سامنا ہے اور صورتحال کافی کشیدہ ہے۔ ایک جانب امریکہ میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد اٹھارہ لاکھ سے بڑھ چکی ہے تو دوسری جانب ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور پرتشدد سرگرمیوں میں شدت آ چکی ہے۔

وبائی صورتحال کے تناظر میں عالمی ادارہ صحت سمیت طبی ماہرین نے وبا کی دسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ انسداد وبا کے اقدامات میں نرمی یا لاپرواہی سے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ انسانی جانوں کا بچانا زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کا پہیہ رواں رکھنا۔ ایک جانب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں وبا کے باعث کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں، دوسری جانب پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک جہاں کی معیشتیں مزید صنعتی جمود کی متحمل ہی نہیں ہو سکتیں، ایسے میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے سوا دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین نے اپنی سب سے اہم سیاسی سرگرمی ”دو اجلاسوں“ میں جہاں اقتصادی سماجی ترقی کے اہم اہداف کا تعین کیا ہے وہاں جی ڈی پی کے حوالے سے کوئی مخصوص ہدف مقرر نہیں کیا گیا ہے جو دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ رواں برس صحت عامہ کا تحفظ چینی حکومت کی اولین ترجیح رہے گی۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ صحت عامہ کا مضبوط نظام، امراض سے متعلق پیش گوئی اور فوری رسپانس میکانزم، امراض کی روک تھام، کنٹرول اور علاج کی دستیابی کا جامع نظام صحت عامہ کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی اگر بات کی جائے تو انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اسے ایک کٹھن آزمائش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ماضی میں دنیا کے اکثر ممالک میں صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق بنتا تھا یا یہ سوچ لیا گیا تھا کہ آج کی سائنسی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھرپور دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانیت کو کسی وبا کے خطرے کا سامنا ہو۔ حد سے زیادہ خوداعتمادی نے یہ دن دکھایا کہ آج پوری دنیا نوول کورونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

کورونا وائرس نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں وائرس یا وبا صرف ایک ملک، خطے یا جغرافیے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ کسی ایک ملک کا وبائی صورتحال پر قابو پا لینا یقیناً کامیابی تو ہے مگر جب تک دنیا کے سبھی ممالک سے وائرس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک کسی بھی ملک کی جیت نہیں ہو گی کیونکہ وبا کا خطرہ بدستور منڈلاتا رہتا ہے۔ لہذا ہر ملک میں صحت عامہ کا مضبوط نظام تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔

نوول کورونا وائرس کے آغاز میں امریکی صدر ہمیشہ کہتے رہے کہ ان کے پاس دنیا کے بہترین طبی ماہرین اور سائنسدان موجود ہیں جو کسی بھی ایسی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج امریکہ دنیا میں وائرس سے متاثرہ سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور تو اور امریکی صد اپنے صدارتی محل ”وائٹ ہاؤس“ کو بھی وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وبا کا خاتمہ کیسے کیا جائے بالخصوص ایسے وقت میں جب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ نوول کورونا وائرس بہت جلد ہماری جان چھوڑنے والا نہیں ہے اور انسانیت کو فی الحال اس کے ساتھ رہنے کی عادت اپنانا ہو گی جیسا کہ ایچ آئی وی ایڈز بھی اس وقت ہمارے معاشروں میں رچ بس چکا ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عالمی تعاون ہی وہ بنیاد ہے جس کے باعث وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ تو جان لیا کہ وائرس کسی قومیت، رنگ، نسل، جنس میں تمیز نہیں کر رہا ہے۔ یہ امیر، غریب، چھوٹے، بڑے ہر ایک کو نشانہ بنا سکتا ہے لہذا ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں صحت کے شعبے کی ترقی کو اہمیت دیں۔ ایسا کرنا خود ان کے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو، غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ، ایوی ایشن انڈسٹری کی تنزلی، سیاحت کے شعبے میں گرواٹ، عالمی کساد بازاری اور بڑی معیشتوں میں شدید مندی ”گلوبل ویلج“ کی اہمیت کی عکاس ہیں۔ عالمی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعات تو تیار کر لیں گی مگر انہیں صارف بھی تو چاہیے اور چیزیں بھی اسی وقت خریدی جائیں گی جب حالات سازگار ہوں گے۔

اسی طرح طبی شعبے کی سائنسی پیمانے پر ترقی کی اہمیت بھی مزید عیاں ہوئی ہے۔ طبی آلات بالخصوص طبی عملے کے لیے حفاظتی لباس کی کمی سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ماضی میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کی شروعات میں ماسک، وینٹیلیٹرز، طبی لباس اور دیگر امدادی سازوسامان کی کمی نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگرچہ مکمل خودکفالت ممکن نہیں مگر ہر ملک کے پاس اتنے وسائل تو ضرور موجود ہوں کے کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔

اس ضمن میں پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال دو ہزار پینتیس تک دنیا بھر کو تقریباً تین کروڑ پیشہ ور طبی ماہرین کی کمی کا سامنا ہو گا۔ اس ضمن میں مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ اور آرٹیفشل انٹیلی جنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ممالک میں طبی وسائل کی دستیابی، سائنس و تحقیق کے فروغ اور طبی آلات کی تیاری جیسے شعبہ جات کو مزید اہمیت دی جائے کیونکہ ٹیکنالوجی کا حصول یا فوری جدید ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی فی الحال اتنا آسان نہیں ہے۔

یہاں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے عوامی انفرادی اور اجتماعی رویے بھی اہم ہیں۔ وبا سے بچاؤ کی خاطر عوام کا ”صحت دوست“ اصولوں پر کاربند رہنا یقیناً سب سے اہم عنصر ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران مجموعی طور پر دیکھا گیا کہ عوام کی اکثریت نے حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ پاکستان میں وبا کی موجودہ سنگین صورتحال اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد پرہجوم مناظر کسی طور پر خوش آئند نہیں ہیں۔ وائرس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور پچھتاوا ہمارا مقدر بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments