میرا تعلق ضلع چترال سے ہے


ہم چترال کے باسی پر امن اور شریف ہوتے ہیں۔ شریف ایسے ہیں کہ اپنے حق کے لئے بھی نہیں بولتے۔ ویسے چترال میں اس وقت بھی امن تھا جس وقت پورے پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ آئے روز دھماکے ہوتے تھے، دھماکوں کی کمینٹری ٹی وی چینلز پہ ایسی ہوتی تھی جیسا کہ ورلڈ کپ کا فائینل میچ چل رہا ہو۔ اس کے باؤجود چترال میں مسائل کی بھرمار اور وسائل کا فقدان ہے۔

چترال کے لئے مرکزی حکومت ہر سال بجٹ میں رقم تو مختص کرتی ہے۔ لیکن کام نہیں ہوتا۔ روڈ ہمارے خستہ حال ہیں، ہمارے پل پل صراط کا منظر پیش کرتے ہیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ تو عام ہے لیکن شریف لوگوں کا کون پوچھتا ہے۔ جو ایکسیڈنٹ میں مر گیا دفنا دیا جو بچ گیا اس کی قسمت، ہم لوگوں نے کبھی پوچھنے کی جرآت نہیں کی کہ ہمیں کب شہری حقوق میسر ہوں گے۔ ہم لوگ ضرورت سے زیادہ شریف ہیں۔ ہم لوگ گورنمنٹ ملازمین کو ضرورت سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔ پھر ہمارے محترم صاحبان چپڑاسی سے لے کر منیجر تک ہمیں ذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یاد رہے گورنمنٹ ملازمین سے مراد اساتذہ ہرگز نہیں ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے۔ اس کے اوپر پھر کبھی روشنی ڈالیں گے۔

اس کے علاوہ غذائی اجناس کی سب سے خراب کوالٹی چترال میں فروخت کی جاتی ہے۔ دس سال سے لے کر 80 سال تک کے افراد ہا ضمہ کے درد کا شکایت کرتے ہیں، مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہ لوگ واقع بیمار ہیں یا فیشن بنا ہوا ہے۔ پہلے پہل ہم لوگ دیسی ایشیا استعمال کرتے تھے۔ مال مویشی خود پالتے تھے۔ سبزیاں خود اگاتے تھے۔ سافٹ ڈرنک کا کوئی رواج نہیں تھا۔ آج کل ہم بازاری ہو گئے ہیں۔ چکن کے نام سے موٹے مرغیاں (پنڈاؤ) بازار میں دستیاب ہیں۔

چائے کے بجائے سافٹ ڈرنک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ چترال میں آبادی اور دکانوں کے لحاظ سے دیکھا جائے۔ تو گورنمنٹ کوالٹی کنٹرول مینجمنٹ کے ذرئعے اچھے معیار کی اشیاء فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن اس کام میں حکومت کے دلچسپی کا فقدان ہے۔ ان ناقص اشیا کے استعمال کی وجہ سے چترال میں کینسر اور ہارٹ کی بیماریاں عام ہیں۔ کبھی ہمارے اداروں نے ان بیماریوں کے اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے علاوہ چترال میں خود کشیوں کا رجحان عام ہے۔ وہاں کوئی غربت سے تنگ آکر خودکشی نہیں کرتا وجوہات ہمیشہ نا معلوم ہی ہوتے ہیں۔ اس پر میڈیا میں رپورٹس تو بنتے ہیں۔ لیکن کبھی جامع تحقیق نہیں ہوئی۔ کہ اس کا حل نکالا جا سکے۔

ہماری ضلعی انتظامیہ کو ہمیشہ سیاست کی لت لگی ہوتی ہے۔ جو بھی ان کے غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں کو درست کرنے کے بجائے انتقامی کارروائی پر اتر آتے ہیں۔ یہاں سے لگ بھگ ایک سال پہلے شھزادہ سراج الملک نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق حکومت کی کارکردگی پر انگلی اٹھایا تھا۔ جو جشن قاقلشٹ کے موقع پر قاقلشٹ کا میدان کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اس صلے میں چترال میں اس کا ہوٹل بند کیا گیا۔ خیر یہ بڑے لوگ ہیں مقابلہ کیا اپنا ہوٹل کھول دیا جو اب بھی چل رہا ہے۔

اب حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کی وبا نے پورے دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس دوران شیر جہان ساحل نامی سماجی کارکن چترال میں کیے گئے ناقص انتظامات، سوشل ڈسٹنسگ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزیوں پر ضلعی حکومت کے خلاف لب کشائی کی۔ اس صلے میں اس کا نام شیڈول فور میں ڈالا گیا۔ اس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہو۔ اس کا وہ جملہ اب بھی مجھے یاد ہے۔ کہ اچھے کام کرنے لگو گے مخالفیں پیدا ہوں گے۔

باقی 21 افراد کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن شیر جہان دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ اس کے رائے سے میرے اختلافات ضرور ہو سکتے ہیں۔

وہ اے کے ڈی این میں بے ضابطگیوں کے خلاف بھی کھل کر بولتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کھل کر بات کرتا تھا۔ ایک سابقہ وزیر صاحب نے اس کے اوپر کیس بھی کیا ہوا تھا۔ خیر سیاسی باتیں سیاسی ہی رہتی ہیں۔ اس حالات کو دیکھ کر جے این یو انڈیا میں احتجاج کا منظر مجھے یاد آ گیا۔ احتجاج میں ایک لڑکی فیض احمد فیض کا یہ نظم پڑھ رہی تھی۔

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments