خورشید ندیم کے مفروضات کا تنقیدی جائزہ


چند روز قبل میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک جناب خورشید ندیم نے اپنے فیس بک پیج پر ایک کالم قارئین کے حوالے کیا جو ان کے اپنے بقول مفروضات پر مبنی تھا۔ وہ کالم کسی وجہ سے اخبار میں شائع نہ ہو سکا تھا۔ چونکہ ان کا حلقہ قارئین کافی وسیع ہے لہذا میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی معروضات کا ایک تنقیدی جائزہ لیا جائے تاکہ مفروضات اور حقائق کے درمیان موجود لائن برقرار رہ پائے۔

https://www.humsub.com.pk/. 319993/khurshid-nadeem-403/

ان کے پہلے مفروضے کے جواب میں گزارش ہے کہ کسی آئین کے تحت وجود میں آنے والی حکومت کے حکمران کو اپنے اختیارات اور طاقت کا استعمال کرنا ہوتا ہے نہ کہ اختیارات کے لیے زد کرنا۔ اور اگر دوسرا مفروضہ بھی مان لیا جائے کہ وہ کسی عصبیت کا اب نمائندہ بن چکا ہے اور اب ان کی مدد سے جمہوری بادشاہ بن سکتا ہے تو فطرتاً مزید بے باکی اور اصول پرستی کی بنا پر فیصلے اور اختیار عمل میں لانا چاہیے لیکن ایسا کوئی واقعہ اس شہادت کے لیے میرے پاس موجود نہ ہے۔

جہاں تک طاقت ور حلقوں کی فرضی سازباز کے متعلق آپ کا کہنا ہے کہ سیاسی حریفوں کو دارالخلافہ میں لانا ان کا ہی کارنامہ تھا تو وہ اس لیے ناقابل قبول ہے کہ اسی جمہوری بادشاہ نے مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کروانا اس وقت تک مناسب نہ سمجھا جب تک حکومت مشکل سے دوچار نہ ہوئی تھی۔ پھر اس معاملے کو حل کرنے کے لیے بھی اسی طاقتور حلقے کی ہی مدد لی تھی مگر جن پر الزام ہے کہ وہ ان کی حمایت سے دارالخلافہ میں جمع ہوئے تھے انہوں نے ان کی بات مان کر دارالخلافہ سے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ تو اس کا تنقیدی جائزہ بھی اگر سامنے رکھتے تو شاید قارئین صحیح فیصلہ کر پاتے۔

عوامی طاقت کو ایک واہمہ قرار دینا بھی میرے نزدیک درست نہ ہے۔ اگر عوام اٹھ کھڑی ہو تو پوری طاقت کے باوجود جنرل مشرف کی غیر آئینی حکومت کے دور میں فوجی حکمرانی سے نفرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فوجی افسران کو بغیر وردی کے عوام میں نہ آنا پڑتا اور پھر بینظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل نہ کرنا پڑتی۔ لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہو۔ پھر آپ طیب اردوان کی طرح فوجی سازشیوں اور سازشوں کو ناکام بھی ٹھہرا سکتے ہیں۔

اور یہ بات بھی اچنبھے والی ہے کہ انکشاف ہوتا ہے کہ بیٹوں کے پاس جائیداد ہے جس کے بارے میں اشارے کافی عرصہ سے مل رہے ہوتے ہیں مگر جواب نہیں ملتا کیونکہ حکمران اور طاقتور طبقے کو جوابدہ ٹھہرانا تو ہمارے جمہوری دور اور معاشرے میں صرف پانچ سال بعد ہی جائز ہے اور جواب نہ ہونے کی صورت میں فوج کی سازش بہترین جواب ہے جو فوج مخالف طبقہ فکر کے لیے سب سے مناسب دلیل ٹھہرتی ہے۔ خیر جو جواب ملتا ہے اگر اسے پرکھنا غلط نہ ٹھہرایا جائے تو یہ سوال بھی کئی دوسرے سوالات کی طرح جنم پا چکا تھا کہ جب آپ کی اولاد نے یہ جائیداد خریدی تھی تو وہ اس وقت بالغ نہ تھے لہذا ذرائع آمدن کیا تھے؟ اگر دادا حضور نے دیے تھے تو کوئی دستاویزی شہادت پیش کرنے سے آپ کا کیس اور دلیل جاندار بنتی یا بے وقعت؟ اگر کوئی پرکھنے کی بجائے من و عن اسے ماننا چاہتا ہے تب بھی یہ اسرار مناسب نہیں ہے کہ باقی لوگ بھی اسے تسلیم کر لیں۔

آگے چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ آئینی اور قانونی اعتبار سے وہ جمہوری حکمران اپنے ملکیتی اثاثوں کو چھپانے یا ظاہر نہ کرنے کی بنا پر حق حکمرانی کھو چکے ہیں اور یہ کام ملک کی سب سے بڑی عدالت کا لارجر بنچ متفقہ طور پر کرتا ہے۔ اگر اس میں کوئی سازش شامل ہے تو بے نقاب کرنا بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے جو اس کے تانے بانوں سے واقف ہیں۔ تاحال ایسا کوئی اشارہ موجود نہ ہے۔ مزید برآں عدالت عظمیٰ ان اثاثوں کی چھان بین کا حکم دیتی ہے جس میں موصوف اپنے دفاع میں کچھ بھی پیش نہیں کر پاتے ماسوائے پریس کانفرنسوں میں فوج اور عدالت کے خلاف الزامات کے اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے تو ظاہر ہے فوج مخالف طبقہ فکر کے سوا سب یہ ماننے پر راضی نہ ہوں گے۔ عدالت سے سزا ہوتی ہے لیکن وہ شاید ذکر کرنا آپ بھول جاتے ہیں۔ سزا سنانے والے جج کے ساتھ موصوف کی سازباز ایک الگ کہانی ہے جو ایک الگ موضوع کی داستان ہے۔

اگے بڑھ کر آپ جو سوالات اٹھا رہے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ازحد ضروری ہے۔ آپ کا یہ سوال اٹھانا کہ اس جمہوری بادشاہ کے نزدیک کے دور حکمرانی میں کوئی ان کی ذات سے منسوب براہ راست بدعنوانی کا سکینڈل سامنے نہیں آیا، موصوف کی مذہبی اور سیاسی سوچ میں کوئی ارتقا ہے۔ اور اپنے دور حکمرانی میں معیشت کو سنبھالا دیا ہے (اگرچہ میں ان باتوں سے اختلاف کرتا ہوں لیکن فرض کرنے میں حرج ہی کیا ہے ) اور یہ بھی کہ یہ مکافات عمل والا معاملہ نہ ہے تو عام آدمی کو کیا کرنا چاہیے۔

اگر نا انصافی کسی دشمن سے بھی ہو تو غلط ہی ٹھہرے گی اور اگر اس جمہوری حکمران سے کوئی نا انصافی ہوئی ہو تو اس کی کوئی دلیل یا جواز بھی غلط ٹھہرے گا۔ اگر تو محض ان سوالات کی بنا پر ووٹ کا فیصلہ یا حمایت کرنا ہو تو ہر شخص موصوف کا ہمنوا ہوتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طرح کی فیصلہ سازی میں عوام کو مختلف تجربات اور دیگر عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا پڑتا۔ اور پھر جمہور کی آواز کو ماننا بھی چاہیے۔ اگر آپ اسے جمہور کی آواز نہیں سمجھتے تو تمام غلط اقدامات کو عوام کے سامنے لانا، انہیں درست کرنے کی جدوجہد کرنا آپ کا فرض عین ہونا چاہیے نہ کہ زبانی جمع پونجی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments