شمالی علاقوں کی ایک چراگاہ کی کہانی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلوں میں کہیں پہاڑی بکریوں (آئی بیکس) اور مارخوروں کا ایک جھنڈ روز برفیلے پہاڑوں سے پانی پینے میلوں کا صفر کر کے دریائے سندھ کے کنارے آتا تھا۔ اس زمانے کے ایک داستان گو سے روایت ہے کہ ہری بھری گھاس میں مارخور خوشی سے جھومتے، اٹکھیلیاں کرتے ہوئے پہاڑوں سے نیچے اترتے نظر آتے تھے۔ لوگ پاس سے گزر جائیں یا ان کے بچوں کو ہاتھ لگائیں تب بھی مارخور اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہتے تھے، یعنی کہ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ انسان ان کے آس پاس بھٹک رہے ہیں۔ یقین کرنے والی بات تو نہیں ہے مگر کر لیتے ہیں کیونکہ داستان گو کی روایت یہی کہتی ہے۔

اور پھر وقت بدلا اور انسان نے شعور کی اگلی منزل پہ قدم رکھا۔ وہی جانور انسانوں سے خوف محسوس کرتے تھے۔ داستان گو کہتے ہیں کہ ایسی ہے کوئی شام تھی اور مارخور اپنی مستی میں دریا کنارے جھوم رہے تھے۔ اب ایسا وقت آ چکا تھا کہ انسانوں کو دیکھ کر کچھ ڈر سے جاتے تھے۔ مارخوروں میں افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ جو جانور لاپتہ ہو رہے ہیں ان کے پیچھے انسانوں کا ہاتھ ہے۔ جس وجہ سے انسان کی بستی سے دور نالوں سے گزر کے دریا تک آنا پڑتا تھا۔ اسی جھنڈ میں ایک چھوٹا سے بچہ جو انسانوں سے ناواقف تھا اپنی ماں کے پیچھے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ چل رہا تھا۔

ادھر ایک انسان (کاچو غلام رسول) نئی بندوق خرید لایا تھا اور قریب نالے سے چٹان کے پیچھے سے نشانہ لئے بیٹھا تھا۔ اور اس کا دس سال کا بیٹا اس کے ساتھ کچھ فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ جسے وہ شکار سکھانے ساتھ لایا تھا۔

بیٹا شکار کرتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ آپ کو اس شکار سے کتنا فائدہ ہوگا۔

جانور بڑا ہو تاکہ زیادہ گوشت نکلے اور سینگ لمبے ہوں تاکہ بستی والوں کو فخر سے دکھایا جا سکے۔ گھر میں کہیں سجایا جا سکے۔ اور نشانہ ہمیشہ اگلی ٹانگوں پہ لینا تاکہ زخمی ہونے کے بعد زیادہ دور نہ بھاگ سکے۔ کبھی کبھی جانور بھاگتے ہوئے دریا میں گر جاتے ہیں اور شکار بے سود ہو جاتا ہے۔

لیکن بابا ہمارے پاس تو اتنی بکریاں ہیں اور ہر ہفتے گوشت کھاتے ہیں تو پھر ہم ادھر شکار کرنے کیوں آتے ہیں؟

بیٹا مارخور اور پہاڑی بکریوں کے گوشت میں جو ذائقہ ہے وہ دنیا کے کسی جانور کے گوشت میں نہیں ہے۔
ہر کوئی اس گوشت کو ترستا ہے۔

لیکن بابا ہمارے بستی میں سب تو شکار نہیں کرتے۔
بیٹا دیکھو۔ شکار کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اول تو ہر کسی کے پاس ایسی انگلستانی بندوق نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو شکار کرنا بڑے سورماؤں کا کام ہے ہر ایرے غیرے سے نہیں ہوتا۔

لیکن بابا۔ ۔ ۔
بیٹا اب خاموشی سے اپنے بابا کا کمال دیکھو۔

جانوروں کا جھنڈ سینگوں کے تاج کے ساتھ انسانوں کی بستی سے دور بڑی شاں و شوکت کے ساتھ پانی کے قریب اپنی مستیوں میں مصروف تھا۔ شکاری اس الجھن میں تھا کہ اتنے ساروں میں سے کس کا شکار کرے۔ سینگ پر بنے ہوئے بل دار ابھار اور لمبائی سے عمر کا اندازہ لگانا بستی میں بچوں کا کھیل تھا۔ شکاری نے کچھ دیر نشانہ لیا اور سوچا ک روایت سے ہٹ کر کچھ نیا کیا جائے۔ ایک چھوٹی عمر کے مارخور پر نشانہ تانا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ارادہ ترک کر دیا۔

سوچا کہ کچھ زیادہ چھوٹا ہے اور ترس بھی آیا کہ اس نے ابھی اپنی زندگی کے دس بارہ سال ہی گزارے ہوں گے۔ انسان ہی تھا آخر ترس تو آنا ہی تھا۔ بندوق کا نشانہ بدلا اور گھومتے ہوئے سب سے بڑے اور عالیٰ شان سینگوں والے جانور پہ رکا۔ اس کے سینگ کسی تاج کہ مانند سر پہ سجے ہوئے تھے اور سر کے اوپر سے گھوم کر پیٹھ کو چھو رہے تھے۔

شکاری نے فیصلہ کر لیا کہ یہی سب سے بہترین ہے اور کچھ دیر کے لیے اپنی سانس بھی روک لی تاکہ کوئی ہلکی سی جنبش بھی نشانہ خراب نہ کرے۔ ساتھ ہی ہر طرف سکوت طاری ہوا۔ کچھ لمحوں کے سکوت کے بعد پورا آسمان فائر کی آواز سے گونج اٹھا۔ آواز کچھ دیر کو اونچے پہاڑوں میں گونجتی رہی اور پھر سکوت طاری ہوا۔

اور ادھر سارے جانوروں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی اور سب اوپر کی طرف بھاگ رہے تھے اور ایک بدقسمت جانور زخمی حالت میں اپنے بچے کے پاس دریا کے قریب لیٹا ہوا تھا۔ بچہ ماں سے کہہ رہا تھا۔

ماں اٹھ جائیں سب ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ماں نے کہا بیٹا تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ میں آ جاؤں گی۔ میں تمہارے لئے وادی سے رنگ برنگے پھول اور پودے لے آؤنگی۔ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ اوپر چلے جاؤ۔

لیکن ماں ابھی تو سارے بہت اوپر چلے گئے ہیں میں اکیلے کیسے جاؤں۔
بیٹا تم اب بڑے ہو گئے ہو کوشش کرو، تم یہ کر سکتے ہو۔
لیکن ماں آپ تو چل نہیں سکتیں پھول لانے کیسے جائیں گی؟
بیٹا میں تھوڑا آرام کر لوں پھر چلی جاؤں گی۔ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جاؤ۔

لیکن ماں آپ کے جسم سے یہ لال سے کیا نکل رہا ہے؟
بیٹا یہ میں نے رستے میں شہتوت کے درخت سے کچھ توت کھائے تھے ان کا رنگ لگ گیا ہوگا۔ تم جاؤ بیٹا اندھیرا ہو جائے گا اور تمہیں ڈر لگے گا۔

لیکن ماں میں تو بڑا ہو گیا ہوں نا مجھے تو اب نہیں ڈرنا چاہیے؟
ہاں بیٹا لیکن میری بات بھی تو ماننی چاہیے نا تمہیں۔ جلدی چلے جاؤ اس سے پہلے کو اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاؤ۔

لیکن ماں۔
بیٹا اب کچھ مت پوچھنا۔ ماں کہہ رہی ہے کہ جاؤ اور تمہیں جانا ہی ہوگا۔
یہ سن کر بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی اوپر کی طرف چل پڑا۔
کچھ اوپر جا کر بچہ پکارا۔
ماں ایک آدمی آپ کی طرف آ رہا ہے۔
بیٹا یہ اپنی ریوڑ سے بچھڑی بکری ڈھونڈ رہا ہے۔

لیکن ماں اس کے ہاتھ میں عجیب سا ڈنڈا اور بڑی سے چھری کیوں ہے؟
بیٹا ڈنڈا اور چھری تو انسان ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بیٹا چلے جاؤ، قسم ہے تمہیں میری اب کوئی سوال نہیں کرنا اور پیچھے مڑ کے نہیں دیکھنا۔

اچھا ماں۔
اس کے بعد بچہ بغیر کوئی سوال کیے چلا گیا اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

آدمی بڑی شان و شوکت کے ساتھ آیا اور جانور کے سامنے پتھر پر اپنے چھری تیز کی اور کچھ ہی لمحوں میں تکبیر پڑھ کر اپنے شکار کی تکمیل کی۔

وہ دن ہے اور آج کا دن، اب جانور انسانوں کی بستی کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ بستیوں سے دور دریا کے کنارے آتے ہیں اور شکاریوں کو انہیں ڈھونڈنے پہاڑوں پہ جانا پڑتا ہے۔ جانوروں نے نیچے آنا چھوڑ دیا ہوگا یا یہ ہو سکتا ہے کہ اتنے جانور اب زندہ بچے ہی نہیں کہ عام انسانوں کو بھی کہیں چلتے پھرتے نظر آجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments