مولوی حور سے کم پہ راضی نہیں


مولوی اس معاشرے کا ایک اہم رکن ہے اتنا اہم کہ اس کے بغیر انسان نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تو انسان مر کر بھی چین نہیں پاتے اور خوابوں میں آ آکر گھر والوں کو مولوی سے رجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مولوی اتنا اہم ہے کہ اس کی مداخلت کے بغیر تو دو جی ایک بھی نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ مقام شکر ہے کہ ایک ہوئے جوڑے کو پھر سے دو ہونے کے لیے مولوی کی ضرورت نہیں پڑتی ورنہ سوچیئے جس طرح یہ ناہنجار معاشرہ دو محبت کرنے والوں کے ایک ہونے کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے اسی طرح ایک ہوئے جوڑے کو پھر سے دو ہونے کے لیے بھی عذاب میں ڈال دیتا۔

مولوی انتہائی اہم پھر بھی ہمارے معاشرے میں سب سے کم درجہ مولوی ہی کا سمجھا جاتا ہے یقین نہیں تو مولوی سے اس کی تنخواہ پوچھ کے دیکھ لیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ جو کچھ نہیں کر سکتا وہ مولوی بن جاتا ہے، حقیقت یہ کہ کئی مولوی ایسے ہوتے ہیں جن کا اپنا دل بھی کچھ اور ہی بننے کو چاہتا ہے کہ وہ خود بھی مولوی کی لگائی پابندیوں سے گھبرا جاتے ہیں اور ملائیت سے فرار کی راہ ڈھونڈتے ہیں۔ اگر کسی پہ مولوی کا لیبل لگا ہے تو بہت سے لوگ اس کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ فیشن کے مطابق ڈیزائنر کپڑے پہن سکے۔

جیسے مولوی لوگوں کو شراب کے قریب جانے سے روکتا ہے، اسی طرح لوگ بھی مولوی کو فیشن کے پاس سے بھی گزرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جہاں کہیں مولوی نے ماڈرن قدم اٹھایا نہیں وہیں سے لوگوں کی صدا بلند ہوتی ہے ”مولوی دیکھ تے ایدے کم دیکھ۔“ فیشن تو دور کی بات لوگ تو مولوی بیچارے کو جھولا بھی جھولنے نہیں دیتے۔ اگر کہیں مولوی جھولا جھولتے دیکھا جائے تو جانو آئی ایم جھولا کی میمز بنا لیتے ہیں۔ مولوی گناہ ثواب بیان کرنے کے حوالے سے اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ بدنام زمانہ لوگ اگر تائب ہو جائیں تو ان پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ میاں تم کیوں اور کب سے مولوی بن گئے۔ آخر مولوی کو معاشرے میں اس قدر ہلکا کیوں لیا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے ہم مولوی کو تو آسانی سے مولوی کہہ دیتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ہم طوائف کو اتنی سے طوائف نہیں کہہ پاتے اور اس کے لیے خاص نام سوچتے ہیں۔ لبرل، ماڈریٹ، براڈ مائنڈڈ ہونے پر ہمیں خوشی ہوتی ہے لیکن مولوی ہونے پر کچھ لوگوں کو بہت سارے اعتراضات ہوتے ہیں۔ لبرل ازم کا شکار لوگ ننگے بدنوں کو تو قبول کر لیتے ہیں لیکن مولوی کی تبلیغ ان سے ہضم نہیں ہوتی۔ مولوی زنا پر کوڑوں کی سزا سنائے تو ظالم، قحبہ خانوں کے اڈے چلیں تو کاروبار۔ مولوی جہاد کا حکم دے تو دہشتگرد، حکومتیں ایٹم و میزائیل چلائیں تو جنگ۔ فحاشی عام ہو تو میرا جسم میری مرضی، مولوی منع کرے تو تنگ نظر۔ مولوی بت رکھنے پہ فتوی لگائے تو جابر، لوگ بت بنائیں تو آرٹ۔

ایک تاثر بنتا جا رہا ہے کہ مسجدیں ویران ہو جائیں تو کوئی بات نہیں، ڈانس کلب اور قزینو آباد رہیں کہ معیشت چلنی چاہیے۔ بھلے کی بات کرو تو مولوی نہ بنو کا طعنہ، فحش کلامی کرو تو اس کے لیے ناٹی، ہنس مکھ، شرارتی جیسے لفظ سہارا دینے کو تیار۔ ذرا سوچیئے مولوی اور لبرل کہیں دو انتہاوں کا نام تو نہیں۔

مولوی کو اس معاشرے کا نارمل انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ وہ بھی نارمل انسان ہے ہم مولوی کانام سنتے ہی بھول جاتے ہیں کہ مولوی کا بھی دل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مولوی پہ الزام دھرتے ہیں کہ مذہب اتنا مشکل نہیں جتنا مولوی نے بنا رکھا ہے۔ کئی مولوی لوگوں کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی واسطے کچھ خواتین کو بلا کر اس کا درس بھی دیتے ہیں، کئی بار تو بن بلائے پہنچ جاتے ہیں اور خواتین کی تدریس کا ایسا اہتمام کرتے ہیں کہ کوئی ابہام نہ رہے۔

اسی درس و تدریس کے دوران وہ چاند دیکھنے کا فریضہ بھی انجام دے لیتے ہیں اور کبھی موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو خود بھی چاند چڑھا دیتے ہیں۔ اور حق گو اتنے ہوتے ہیں کہ چاند کو چاند کہنے سے شرماتے بھی نہیں۔ لیکن جانے کیوں کچھ لوگوں کو ان کا چاند دیکھنا پسند نہیں آتا اور بس وہ مولوی بیچارے کو چاند دیکھنے کی پاداش میں دھر لیتے ہیں، جبکہ کچھ مولوی تو اتنے انوکھے لاڈلے ہوتے ہیں کہ دھر لینے کے باوجود کھیلن کو چاند ہی مانگتے ہیں

لوگ تو مولوی کے یونہی دشمن ہوئے پھرتے ہیں اور اسے تنگ نظر کہتے ہیں۔ یقین کریں مولوی ہرگز تنگ نظر نہیں ہے اس کی وسعت نظر کا عالم یہ ہے کہ عام عورت تو اس کی نظر میں سماتی ہی نہیں، بلکہ مولوی تو حور سے کم پہ راضی ہی نہیں ہوتا۔ مولوی کا دل اتنا کشادہ ہے کہ وہ باغ بہشت میں صرف اپنی اجارہ داری نہیں چاہتا بلکہ نوجوانوں کو بھی حوروں کے خواب دکھا کر ورغلاتا رہتا ہے۔ مولوی کی نظر اور دل تو اتنا کشادہ ہے کہ وہ اس میں نہ صرف سترحوروں کے سمانے کی وسعت رکھتا ہے بلکہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو بھی دعوت حور دیتا پھرتا ہے۔

اگر مولوی کی سوچ محدود ہو تو بھلا وہ ستر کا لالچ کیوں دے، تنگ نظر ہو تو دوسرے مردوں کو اپنا رقیب سمجھ کر حوروں کے خواب دکھانے سے گریز کرے اور تمام حوروں کا بلاشرکت غیرے خود مالک بن جائے۔ لیکن نہیں وہ تو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے جانے پہ بضد نظر آتا ہے۔ یہ اس کی دریا دلی نہیں تو کیا ہے کہ وہ لنگوروں کو بھی دعوت حور دیتا ہے، جبکہ عام آدمی کی تنگ نظری کا یہ عالم کہ وہ تو خوشی کے موقع پر بھی اسے زمینی حور نہیں دیکھنے دیتے اور نکاح پڑھوانے کے فوری بعد مولوی کو چلتا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر مولوی بیٹھا ہے اور ہر مولوی کے دل میں حور کی رفاقت کی خواہش۔

اس معاملے میں مرد تو مولوی سے خوش نظر آتے ہیں لیکن کچھ خواتین ان سے نالاں ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ مولوی مردوں کے لیے تو ستر حوروں کی بشارت سناتا ہے لیکن ہمارے لیے اسی موٹے، کالے، ٹھگنے بشارت کی وعید دیتا ہے جس نے یہاں زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف کہ خود تو مرد ستر حوروں کا ساتھ پانے کے لیے مرجائیں، لیکن جس سے جان چھڑا کر ہم عورتیں مریں انھیں پھر اسی کے ساتھ کی سزا مل جائے۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ مرد ستر کے ساتھ عیش کریں لیکن عورتوں کو جنت میں جا کر بھی جلاپا بخشتے رہیں وہ بھی اکٹھی انہترکا۔ خود بتائیے انہتر سے دل بہلانے کے بعد 70 ویں کو کون منہ لگائے گا وہ بھی اس صورت جس کے ساتھ پچھلے ستر برس بیزاری میں کاٹے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments