کیا آپ صفائی کا جنون کی حد تک خیال رکھنے کے مرض کا شکار ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ ۔ ۔ کمال احسن

کمال احسن کا خط

محترم ڈاکٹر صاحب!
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔

میرے ایک دوست کمال احسن (فرضی نام) نے آج اپنا حال دل مجھ پر منکشف کیا۔ بہت دکھ ہوا سن کر۔ اس کا مسئلہ اسی کی زبانی سن لیجیے۔ اور کوئی حل تجویز کیجیے۔ آپ کے احسان مند رہیں گے۔

میری عمر بتیس سال ہے، میری بیوی مجھ سے پندرہ سال بڑی ہے، ہماری شادی کو چھ سال ہو گئے ہیں، ہمارا پانچ سال کا ایک بیٹا ہے۔ ہماری پیار کی شادی تھی، میری بیوی اب بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ میرے سسرال والے امیر لوگ ہیں، جبکہ میں ایک اوسط درجے کا تنخواہ دار بندہ ہوں۔ میں سسرال کے دیے ہوئے گھر میں رہتا ہوں جو کہ ان کے گھر سے متصل ہے۔ اب اصل مسئلے کی طرف آتا ہوں۔

میری ساس انتہائی وہم کا شکار خاتون ہیں، جس سے یہ بیماری ان کی بیٹی یعنی میری بیوی کو بھی منتقل ہوئی ہے۔ میری بیوی روز اپنی ماں کو نہلانے کے لیے ان کے پاس گھنٹا ڈیڑھ موجود رہتی ہے۔

جب میں باہر سے گھر میں داخل ہوتا ہوں، تو سب سے پہلے مجھے کپڑے تبدیل کر کے نہانا پڑتا ہے، اس سے پہلے میں کسی سے نہ مل سکتا ہوں نہ بات کر سکتا ہوں، یہاں تک کہ عید کی نماز پڑھ کر جب میں گھر میں داخل ہوا تو میرا بیٹا دوڑ کر میرے پاس آیا اور میرے گلے لگ کر عید مبارک دی، مگر اس کی ماں نے دور سے غصے میں اسے آواز دی کہ ”پاپا ابھی گندے ہیں، جب نہا کر پاک ہوجائیں گے، تب مل لینا“ مجھے اس کے اس رویے سے اتنی تکلیف ہوئی کہ بہ مشکل میں نے خود کو اور اپنے جذبات کو قابو کیا۔

جب کوئی مہمان ہمارے گھر سے ہو کر جائے تو سارا گھر دھلواتی ہے، چارپائیوں کی چادریں تک دھو کر تبدیل کرواتی ہے یہاں تک کہ اگر میں کسی دکان وغیرہ سے واپس آ جاؤں تو کرنسی نوٹ تک دھلوا دیتی ہے۔ بازار سے واپس آکر گاڑی کو سرف سے دھلواتی ہے۔ اگر کسی کے بارے میں سن لے کہ بیس سال پہلے اس کا والد یرقان کی وجہ سے فوت ہوا تھا تو اس سے ملنا اور بات کرنا ترک کر دیتی ہے۔

وہ باقی زندگی میں کافی سوشل ہے، اچھے طریقے سے لوگوں سے ملتی ہے، مگر گھر واپس آکر (وہم کے معاملے میں ) جیسا برتاؤ کرتی ہے، وہ باقی دنیا سے مخفی ہے۔
میں اس صورت حال سے اکتا گیا ہوں، برداشت کر کر کے میرا اسٹیمنا ختم ہوگیا ہے۔ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا اس حال میں بڑا نہ ہو کہ اس بیماری سے اس کی اور دوسروں کی زندگی اجیرن ہو۔

مخلص۔ ۔ ۔ کمال احسن

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

محترمی کمال احسن صاحب۔ ۔ ۔ محترمہ جس نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں وہ ان کی شخصیت کی ایک ایسی کجی ہے جسے ہم آبسیسو کمپلسیو پرسنیلٹی ڈس آرڈر (شخصیت پر جبراً طاری ہو جانے والا مرض)
OBSESSIVE COMPULSIVE PERSONALITY DISORDER

کا نام دیتے ہیں۔ پرسنیلٹی ڈس آرڈر کے مریض خود کم دکھی ہوتے ہیں دوسروں کو زیادہ دکھی رکھتے ہیں۔ ایسے مریضوں کی علامات چار مختلف انداز سے اپنا اظہار کر سکتی ہیں۔

صفائی
ایسے لوگ حد سے زیادہ صفائی پسند ہوتے ہیں۔ چاہے وہ بار بار ہاتھ دھونا ہو یا کپڑے صاف کرنے ہوں یا گھر کی صفائی کرنی ہو۔ وہ نہ صرف خود انتہا پسند ہوتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی صفائی کے اس معیار پر اصرار کرتے ہیں اور دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں لیکن انہیں خود اپنے مزاج کی شدت کا احساس نہیں ہوتا۔

وقت
ایسے لوگ وقت کی بہت پابندی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود دیر سے نہیں پہنچتے بلکہ اگر کوئی مہمان وعدہ کر کے دیر سے آئے تو اسے بھی طعنے دے کر شرمندہ کرتے ہیں۔ وہ مہمانوں سے کہتے ہیں کہ آپ نے دیر سے آ کر ہماری توہین کی ہے۔

پیسا
ایسے لوگ دولت کے بارے میں بہت فکرمند ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایک پیسے ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کون سی چیز کتنے روپوں کی خریدی تھی اور ان کے بینک میں کتنے روپے جمع ہیں۔ میری ایک مریضہ نے جب کہا کہ انہوں نے لنچ پانچ ڈالر کا خریدا تو شوہر نے تصحیح کی اور کہا پانچ ڈالر کا نہیں چار ڈالر اور اسی سینٹ کا۔

اخلاقیات
ایسے لوگ اخلاقیات کے بارے میں بہت پریشان رہتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو شدید احساس گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر کسی اور سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے بار بار ندامت کا احساس دلاتے ہیں۔

ایسے لوگ مثالیت پسند ہوتے ہیں۔ اور بعض دفعہ جب زندگی کے حقائق ان کے خوابوں یا آدرشوں کو مسمار کریں تو وہ یاسیت اور ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ذات سے بھی اور دوسروں سے بھی بہت سی امیدیں اور توقعات رکھتے ہین اور جب وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ شاکی ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے غالب نے فرمایا تھا

؎ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

ایسے مردوں اور عورتوں کو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ زندگی کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں۔ ہم ایسے مریضوں کے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو کہ ان کا رویہ قدرے ہمدردانہ ہو۔

کمال حسن صاحب۔

آپ کی بیوی کو تھراپی کی ضرورت ہے۔ بعض ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ موروثی بھی ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی بیوی نے یہ مسئلہ اپنی والدہ سے وراثت میں بھی پایا ہو۔ آپ اپنی بیوی کو یہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی مل کر کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں تا کہ ہم دونوں اس مسئلے کے لیے مدد حاصل کر سکیں۔

مجھے آپ سے ہمدردی ہے کیونکہ ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا آسان نہیں۔ آپ نے اتنے ماہ و سال اپنی محبوبہ بیوی کے ساتھ گزارے میں آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔

مخلص
ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments