نئے چہروں اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے تحریک انصاف تبدیلی لا سکتی ہے


سیاسی حالات پر نظر رکھنے والا ایک عام آدمی بھی بتا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اگلی حکومت تحریک انصاف کی بنا کے دی جائے گی۔ جمہوریت کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے، مگر پاکستان کے اس دلفریب و دل کھینچ مگر تزویراتی نقطہ نگاہ سے حساس خطے میں جمہوریت ذرا اور معنوں میں پائی جاتی ہے۔ یہاں جمہوریت ایسی ہے کہ عوام کے لئے حکومت وفاق کے ذریعے۔ سو تمہید کو طول دیے بغیر مدعا بیان کیے دیتا ہوں۔

تحریک انصاف گلگت بلتستان کی منتظر حکومت ہے۔ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومتوں کی کارکردگی اور اس کے ہیجانی سیاسی کلچر کو دیکھتے ہوئے یہاں بھی کسی مثالی حکومت کی توقع لگائے بیٹھنا عبث ہے۔ تاہم بات وہی کہ معروضی حقائق اور سیاسی قرائن واضح ہیں کہ حکومت تشکیل پائے گی تو پی ٹی آئی کی جس میں تحریک انصاف کا اپنا کوئی کمال نہیں ہو گا۔ اس معروضی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کے پالیسی سازوں سے 2 گزارشات!

جن پر عمل کرتے ہوئے بہرحال اس خطے کے سیاسی نظام اور ڈائنیکمس کو بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی مقتدر اور گلگت بلتستان کی منتظر حکومت یعنی تحریک انصاف اگر اپنے تبدیلی کے دعوے اور وعدے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے، وفاق اور پنجاب میں کیے سیاسی بلنڈرز کا ازالہ چاہتی ہے تو گلگت بلتستان میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھا سکتی ہے۔

نئے چہروں کو سامنے لایا جائے

عمران خان کی بزعم خود 22 سالہ جدوجہد ہی اسٹیٹس کو کے خلاف تھی، خان صاحب روایتی سیاسی کلچر اور الیکٹیبلز کی سیاست کے سخت ناقد رہے ہیں مگر آخر میں جا کر انہی سارے سیاسی مہروں کو ملایا جن کی مخالفت ان کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو ایسی حکومتیں دکھائی نہیں دیتیں جیسی حکومت خان صاحب بطور ماڈل بتایا کرتے تھے۔ اب موقع ہے کہ پی ٹی آئی گلگت بلتستان میں نئی حکومت میں ایسے نئے سیاسی چہرے شامل کرے جو واقعا خان صاحب کی تبدیلی کے دعوے سے لگا کھاتے ہوں۔

تحریک انصاف گلگت بلتستان کے ہر حلقے سے الیکٹیبلز ڈھونڈ رہی ہے مگر دوسری جانب اس کے پاس کچھ ایسے نسبتاً نوجوان لوگ ہیں جو اپنے حلقوں میں سیاسی رسوخ بھی رکھتے ہیں، عوام میں مقبولیت بھی، وہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مہذب و مودب بھی، سیاسی سوج بوجھ کے بھی حامل ہیں، علاقے کی سیاسی حرکیات اور تقاضوں کی سمجھ بھی رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پڑھے لکھے سیاست دان عمران خان کی غیر روایتی سیاست کا استعارہ ہیں۔

یہ کبھی لوٹے نہیں بنے، انہوں نے سیاست کا عروج ہی پی ٹی آئی میں دیکھا ہے، گویا یہ تبدیلی کی دعویدار جماعت کا اصل چہرہ ہیں۔ مثلاً سکردو شہر میں تقی اخونزادہ ہیں۔ پاکستان کی صف اول کی دانش گاہ قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری یافتہ تقی اخونزادہ سکردو شہر میں اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں، معاملہ فہم انسان ہیں (معاملہ فہمی اور سنجیدگی کی پی ٹی آئی کو زیادہ ضرورت ہے)، تقی اخونزادہ جیسے لوگوں کی فی زمانہ حکومت کو زیادہ ضرورت ہے۔

سی پیک کے تناظر میں حکومتی ٹیم میں ایسے افراد لازما ہونے چاہئیں جو بین الاقوامی سیاست اور امور پر نگاہ رکھتے ہوں، کسی بھی فورم پر گلگت بلتستان کا مقدمہ (سی پیک کے حوالے سے اور آئینی حیثیت کے تناظر میں بھی) بطریق احسن بیان کر سکتے ہوں، مختلف غیر ملکی وفود سے صرف مصافحہ کی بجائے موثر ابلاغ کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں۔ لہذا میری نظر میں بلتستان ڈویژن سے تقی اخونزادہ ممکنہ حکومتی پارٹی کے لئے بہتر آپشن ہو سکتے ہیں، سکردو شہر کے حلقے سے ان کو ٹکٹ دینا بنتا ہے۔

تقی اخونزادہ اس وقت سے پی ٹی آئی میں ہیں جب گلگت بلتستان میں پارٹی کا کوئی نام لیوا نہ تھا۔ نامساعد حالات بلکہ یوں کہیں کہ خطے میں پی ٹی آئی کے ابتدائی ایام میں اخونزادہ ہی تھے جنہوں نے بطور سکیرٹری اطلاعات میڈیا پریس کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پارٹی کو اٹھان دی۔ عمران خان کے سیاسی فلسفے کا پرچار کیا، پارٹی پیغام کی تواتر کے ساتھ ترسیل کی، تب جا کے گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی نے اپنے لئے گنجائش نکالی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2015 کے انتخابات میں اخونزادہ کی ٹیم کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ سکردو شہر کی اہم سیٹ پی ٹی آئی نے ابتدائی نتائج کے مطابق جیت لی تھی، بلکہ نتائج کا اعلان بھی ہو چکا تھا، یہ الگ بات کہ اس وقت کی وفاقی حکومتی پارٹی نے الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابی قوانین سے ماورا ووٹ کی دوبارہ گنتی کرائی اور پی ٹی آئی کے راجہ جلال کو صرف ایک ووٹ سے شکست سے دوچار کروایا۔ اب چونکہ راجہ جلال گورنر کے عہدے پر متمکن ہیں لہذا ان کے بعد اخونزادہ ہی ہیں جن کی حلقے میں ہی نہیں بلکہ پورے بلتستان ریجن میں پارٹی کے لئے زیادہ خدمات ہیں سو سید جعفر شاہ، سیف اللہ نیازی، گورنر راجہ جلال اور دیگر ذمہ داران تقی اخونزادہ کی صورت میں پی ٹی آئی کے سیاسی رنگ ڈھنگ سے ہم آہنگ ایک امیدوار کو آگے لا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن سے بھی ٹیلنٹ کشید کرنے کی ضرورت ہے۔

بلدیاتی اداروں کی تشکیل اور انتخابات

گلگت بلتستان میں 2004 کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ لوکل باڈیز پی ٹی آئی کے وفاقی منشور کا اہم حصہ تھا۔ خان صاحب تواتر کے ساتھ برطانیہ جیسی قدیم جمہوریت کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہاں اختیارات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں جن سے عوام براہ راست فیض یاب ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ یوتھ اس کی اصل طاقت ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی طور پر امپاور کرنے کے لئے لوکل باڈیز سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔

بلدیات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ بلدیاتی سسٹم سے ہی مستقبل کی قیادت ابھرتی ہے۔ لہذا تحریک انصاف کے وفاق اور گلگت بلتستان میں کرتا دھرتا آگاہ ہوں کہ گلگت بلتستان میں ایک قابل عمل اور با اختیار لوکل باڈیز نظام ناگزیر ہے۔ یہ یہاں کے نوجوانوں کی ڈیمانڈ ہے۔ تحریک انصاف اسے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائے۔ اسمبلی انتخابات کے ایک سال کے اندر اندر لوکل گورنمنٹ الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے۔ گزشتہ 10 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اختیارات کو نیچے منتقل کرنے کی بجائے چھوٹے بڑے تمام معاملات براہ راست دیکھنے کی کوشش کی۔

لوکل گورنمنٹ کی غیر موجودگی میں بلدیہ کا نظام ہی تہس نہس ہو چکا ہے۔ اب تحریک انصاف اگر خود کو تبدیلی کی جماعت ثابت کرنا چاہتی ہے تو یہ بہترین موقع ہو گا کہ عوام کے مسائل دہلیز پہ حل کرنے کے لئے سبیل فراہم کی جائے، نوجوانوں کے لئے سیاسی و حکومتی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے یعنی بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے۔ پی ٹی آئی کا تھنک ٹینک اور پارٹی ذمہ داران پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لاتے ہوئے اور لوکل گورنمنٹ کا نظام بناتے ہوئے حقیقی تبدیلی کی طرف اہم قدم اٹھا سکتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں تبدیلی لاتے ہوئے خان صاحب کے مشن کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وفاق پاکستان اور صوبوں میں تبدیلی کے خواب کی جو بھیانک تعبیر دی گئی ہے اس کا یہاں سے ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھری خوبصورت وادیوں سے پاکستان میں تبدیلی کے خواہاں لوگوں کو ایک خوشگوار سیاسی پیغام اور تبدیلی کا تاثر دیا جا سکتا ہے۔ تبدیلی کا راز پڑھے لکھے نوجوان قیادت کے انتخاب میں مضمر ہے، با اختیار بلدیاتی حکومت کی تشکیل میں پنہاں ہے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments