شناخت چھپانے والے



افوہ یہ آج پھر منہ ڈھانپ کر آ گئی ہے۔ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے۔ مجال ہے جو مان جائے۔ پچھلی بار بھی رکھ رکھ کے سنائی تھیں اسے میں نے اس نقاب کی وجہ سے۔ بھئی اتنا پردے کی بوبو بننے کا شوق تھا تو گھر بیٹھنا تھا نا۔ کس نے کہا تھا لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے یونیورسٹی آ جاؤ۔ ملک میں کالجز کی کمی تھوڑی ہے؟ وویمن یونیورسٹیوں میں داخلہ لے لیتی۔ اور پھر مستزاد یہ کہ اس گاؤن اور نقاب کے ساتھ پٹر پٹر انگلش میں بات کرتی ہے کہ سب اساتذہ کی پسندیدہ بنی بیٹھی ہے۔

مجال ہے کبھی کسی کی بات پہ شرمندہ ہو جائے۔ اور عجیب بات یہ کہ اپنے دفاع میں کچھ بھی نہیں بولتی تھی بس پردے کے پیچھے سے اس کی آنکھیں گویا استہزایہ سے انداز میں مسکرا دیا کرتی تھیں

ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ مائگریٹ ہو کر آنے والے اسجد اسلام نے اس کو بھری کلاس میں اوپن ڈسکشن کے نام پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔

مس ماہ وش اپ کو عجیب نہیں لگتا اس طرح اٹھ کر یونیورسٹی آ جاتی ہیں اپ؟ اپنی شناخت کیوں چھپاتی ہیں آپ؟

اس بات پہ وہ بہت سکون سے بولی یہی میری شناخت ہے اسجد اسسسسسلام۔ اسلام کو خاصا کھینچ کر بولتے ہوئے اس نے سلسلہ کلام جار ی رکھا۔ یہی میری شناخت ہے کہ میں ایک باپردہ خاتون ہوں۔ کیا اپ کو دور سے لڑکیوں کے گروہ میں کھڑی ہوئی ماہ وش چوہدری الگ سے نہیں دکھتی؟

ہاہاہا الگ سے کا تو کچھ نہیں کہ سکتا نمونہ ضرور دکھتی ہیں۔ (اسجد نے میرے کان میں سرگوشی کی، یی الگ بات ہے کہ وہ سرگوشی اتنی بلند تھی کہ ماہ وش بخوبی سن سکتی تھی)

نہ جانے اس کی آنکھوں میں ایک۔ دم اتنا سارا پانی کیوں بھر آیا تھا۔

خیر اس دن بات آئی گئی ہو گئی۔ اصل مزہ تو تب ایا جب تھیسس کے لئے ہمارا ایکسٹرنل ایگزام رکھا گیا۔ اور قسمت دیکھیں کہ میرا اسجد اور ماہ وش کا ایک ساتھ نمبر تھا لہدا ہم لوگ ایک گروپ کی صورت میں بیٹھے ایگزیمنر کا انتظار کر رہے تھے جو کہ جلد ہی روسٹرم پہ نمودار ہوئے یہ ایک خوش شکل سے لمبے تڑنگے ہیرو نما صاحب تھے۔ پہلی باری ہی ماہ وش کی تھی۔ ایگزیمنر صاحب ماہ وش کے نقاب میں الجھ گئے اور اس سے سخت قسم کے سوالات شروع کر دیے۔ بی بی اپ نقاب اتار کر بولیں مجھے آپ کی اواز نہیں سمجھ ا رہی

سر میں تھوڑا اونچا بولتی ہوں۔ وہ جھک کر منہ کو مائیک کے بالکل قریب کر کے بولی۔ اور اواز تو اچھی خاصی واضح تھی پتہ نہیں کیوں ان صاحب کو کیوں نہیں سمجھ ا رہی تھی۔

اب کہ بات ڈائریکٹ نقاب پہ ا گئی۔

اپ اپنا حلیہ دیکھئے زرا۔ لگ رہا ہے کہ مستقبل کی چیف ایگزیکٹو ہیں؟ اس طرح لپٹ لپٹا کر تو اپ محض درس دینے والی خالہ جان ہی دکھتی ہیں۔

ایک پڑھی لکھی لڑکی اور عام۔ گھر بیٹھی لڑکی میں کچھ تو فرق نظر انا چاہیے مس جی۔

سر یہ میرا ذاتی معاملہ ہے آپ کو اسے اچھالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ماؤ وش نے بھرائی ہوی اواز میں کمزور سا احتجاج کیا

جی جی بالکل ذاتی ہے میں کون سا آپ کو فورس کر رہا ہوں کہ نقاب اتار دیں۔ میں تو بس۔ ۔ ۔
اور اس کے بعد کی ساری دشمنی نمبر دیتے ہوئے اتاری جانی تھی۔
ماہ وش نے اس روز اپنے دفاع میں بس ایک شعر بولا جو میرے ذہن میں اتر سا گیا۔

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
٭٭٭  ٭٭٭

یونیورسٹی کی زندگی ختم ہو گئی ہم۔ سب پریکٹیکل زندگی میں آ چکے تھے۔ میں اور اسجد ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہے تھے۔ سالانہ آڈٹ سر پہ ا پہنچا تھا کہ کرونا کی وبا پھوٹ پڑی۔ ہر طرف ہڑبونگ سی مچ گئی۔ ماسک سینیٹائزر فیومیگیشن ڈس انفیکشن اور پتہ نہیں کیا کیا۔ دو ماہ ورک فرام ہوم کے بعد ہماری کمپنی کھل گئی اور سالانہ آڈٹ کے لیے مجھے اور اسجد کو آڈیٹر سے ڈیلنگ کی ذمہ داری دی گئی۔

مقررہ وقت پر ہم دونوں این 95 ماسک اور گلوز پہنے کمروں کو سپرے کروانے کے بعد دماغی طور پر ہوشیار باش بیٹھے تھے کہ اردلی نے دروازہ کھولا اور ایک گاون اور نقاب والی خاتون انتہائی باوقار انداز سے چلتے ہوئے دا خل ہویں۔ میں اور اسجد اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر احتراماً ان کے کرسی پہ بیٹھنے کا انتظار کرنے لگے۔

آڈیٹر صاحبہ نے بیٹھتے ہوئے ہمیں بھی کرسی سنبھالنے کا عندیہ دیا اور کسی بھی ریکارڈ کو ہاتھ لگانے سے پہلے متانت سے گویا ہویں

اپ لوگوں نے اپنی شناخت کیوں چھپائی ہوئی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments