تصوف کا مفہوم اور دائرہ اثر


کرہ ارض پہ رہنے والے تمام انسان خواہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی بھی مذہب کے معتقد ہوں، ان کے اندر ہمیشہ اپنے اندر کو جاننے اور اپنی روح کے تزکیہ کرنے کا جذبہ ہر حال میں موجود ہوتا ہے۔ اس معاملے میں باقی مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام، کے متبعین بھی اس بات میں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ جن نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کا مبعوث نہیں ہوا تھا، اس وقت تک دنیا کا ایک بڑا حصہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا پیروکار بن کر زندگی گزار رہا تھا، اور اس کی پیروی میں ہی اپنی نجات کو موقوف سمجھتا تھا۔

لیکن سیدنا مسیح ؑ کی ذات کے آسمان پہ چلے جانے اور اس کے بعد حوادث زمانہ کے باعث آپ ؑ کی تعلیمات کے اندر بتدیج تبدیلیاں پیدا ہوتی گئیں، حتیٰ کہ عیسائی مذہب محض رہبانیت اور خلوت نشینی کا نام بن گیا۔ جب اس سلسلے کو عروج ملا تو ان تارک الدنیا افراد کے واسطے باقاعدہ خانقاہوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا، جہاں یہ لوگ اپنے اردگرد کے ماحول اور حالات سے بالکلیہ الگ رہ کر یاد خداوندی میں مشغول رہتے، انتہائی سخت قسم کی جسمانی ریاضتیں کرتے، اپنے آپ کو دنیوی لذتوں سے محروم رکھتے اور تزکیہ نفس کا اہتمام کرتے۔ یہی وہ حالات تھے جب اللہ کے آخری نبی جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کا مکہ میں ورود ہوا، اور آپ ﷺ نے پہلے چالیس برس اس بات کا نہ صرف گہرا مشاہدہ کیا، بلکہ خلوت نشینی کے واسطے غار حرا کو منتخب فرما کر خدا کی یاد میں مشغول رہنا اپنا محبوب مشغلہ بنا لیا۔

لیکن جب آپﷺ کے اوپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپﷺ کو خدا تعالی ٰ کی جانب سے نیا لائحہ عمل مل گیا، تو آپﷺ نے اس خلوت نشینی والی زندگی کو ترک کیا اور اس کی بجائے ایک عملی انسان کے طور پہ معاشرے کے اندر ایک فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ آپﷺ کو ابتداً اس کام میں مشکلات بھی پیش آئیں کہ، جب آپ ﷺ نے صدیوں سے قائم شدہ تصور عبادت کے نظام کہنہ پہ ضرب لگائی تو اس کے متبعین اور جانثاروں کا مزاحم ہونا فطری امر تھا۔

تاہم آپ ﷺ نے اپنی شبانہ روز محنت اور اپنی جماعت کے اخلاص کی بدولت ایک نئے نظام عبادت اور کاروبار دنیا کا تصور دیا، جس نے سابقہ ادیان نظریات کے برعکس حقیقی زندگی اور فعالیت کا تصور دیا۔ آپﷺ نے جو دین اسلام کا تتصور دیا اس میں تارک الدنیا ہوکر یاد خداوندی اور اس کی رضا کو یکسر منسوخ کرتے ہوئے، معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری اور اس کی فلاح کے لئے سعی مسلسل اور ہمہ وقتی جدوجہد کو لازم قرار دے دیا۔ آپ ﷺ نے جب اس نئے نظام کے بنیادی خدوخال واضح کردیے تو، بحکم خداوندی آپﷺ اپنے خالق حقیقی کے پاس جاپہنچے۔

تاہم آپﷺ کی تیار کردہ جماعت نے آپ ﷺ کے اس مرتب شدہ نظام کے تحت، اس کو حقیقی طور پہ اپنے معاشرے کے اندر لاگو کرتے ہوئے، دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس کی برکات سے مستفید فرمایا۔ لیکن جیسے باقی ادیان کے اندر بھی مرور زمانہ کی بدولت نئے نئے نظریات کی آمیزش نے، ان کی اصل تعلیمات کو گہنا دیا کچھ یہی حالت اسلام کے ساتھ بھی ہوئی۔

جب دین اسلام بلاد عرب سے نکل کر عراق سے ہوتا ہوا ایران پہنچا، تو ایک نئی تہذیب اور مکتبہ فکر کے ساتھ میل ملاپ کی بدولت یہاں بھی وہی نظریات اور تعلیمات کا پرچار شروع ہوگیا، جس کو اسلام سے نہ تو کوئی واسطہ تھا اور نہ اسلام کے تحت وہ چیز مقصود بالذات تھی اور اسے تصوف کا نام دے کر اسلامی تعلیمات کے اندر شامل کرکے عوام الناس کو ایک نئے فکری انتشار سے دوچار کر دیا۔ تصوف کا آغاز گو اس صورت میں ہرگز نہ ہوا، کہ جس صور میں آج ہم اس کو دیکھتے ہیں، بلکہ اس کے متقدمین ٹھیٹھ اسلامی شریعت کے متبعین اور سنت کے احیاء کے داعی تھے۔

لیکن رفتہ رفتہ اس شعبے کے اندر ایسے افراد شامل ہوئے، جنہوں نے بعد میں اس کو باقاعدہ اسلامی شریعت سے الگ شعبہ بنا کر اس کی تعلیمات کو اصل مان کر اس کی پیروی میں ہی اپنی نجات سمجھنے لگے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ تمام عادات و اطوار جن کو بانی اسلام ﷺ نے سخت ناپسند فرمایا اور جن کی مخالفت میں اپنی عمر گنوائی، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ تمام چیزیں دوبارہ عود آئیں اور یوں اسلام کے اندر شریعت اور طریقت کے نام پہ دو الگ الگ مکاتب فکر وجود میں جو اپنے نظریات اور خیالات میں اجتماع ضدین کی مثال بن چکے ہیں۔

لیکن اگر ہم اسلام کی تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں اور ان صوفیاء کی زندگی کو دیکھیں جن کے نام پر آج یہ سب خرافات کی جارہی ہیں، تو وہ ہمیں اس چیز سے کوسوں دور اور ایک الگ دنیا کے راہی نظر آتے ہیں۔ چنانچہ صوفیاء کے سلسلہ کے متقدمیں نہ صرف پابند شریعت تھے، بلکہ اپنے متبعین کو بھی ہر حال میں سنسنت نبویﷺ کی پیروی میں ہی نجات مانتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معاشرے کے اندر ایک فعالی مرکز کا نشان تھے، جو نہ صرف ارباب حکومت کی اصلاح کرتے تھے بلکہ خدا کی مخلوق پہ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کرتے تھے۔

لیکن افسوس کے آج ان مقدس ہستیوں کے اپنے ہی سلاسل کے اندر، اس قدر برائیاں اور خرافات داخل ہوچکی ہیں، کہ جن کو دیکھ کر ایک انسان یہ ہی نہیں سمجھ پاتا کہ اسلام کس چیز کا نام ہے اور آج کے دور میں وہ ہم سے کس بات کا تقاضا کرتا ہے۔ اور ہم آج پاکستان میں موجود کسی بھی خانقاہ کو دیکھ لیں، ہمیں گدی نشینی کی جنگ اور ارتکاز دولت کی کشمکش تو نظر آئے گی، مگر معاشرتی برائیوں کی روک تھام، انسانیت کے دکھوں کا مداوا اور بوسیدہ سیاسی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی فکری، قولی یا عملی تحریک کا نام و نشاں نہیں ملے گا۔

اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہماری آج کی دور کی نسل اسلام کو محض گورکھ دھندہ، خلوت نشینی کا علم بردار اور تصوف کو محض ارتکاز دولت کی علامت سمجھتی اور جانتی ہے۔ ہمارا آج کا تصوف بس ہا ہو کی مجالس، ڈھول کی تھاپ پہ مخلوط رقص اور شریعت کا استہزا کا استعارہ بن چکا ہے۔ اور اسلام ہم سے آج کے دور میں کیا تقاضا کرتا ہے یہ سوال آج کے تصوف میں خارج از نصاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments