میرا دم گھٹ رہا ہے


میرا دم گھٹ رہا ہے محض انسانی تکلیف کا کربناک بیانیہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ریاستی جبر کے مقابل انسانی بے بسی کا مکمل اظہار بھی ہے۔ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے باسیوں کے غیر سماجی اور غیر مہذب طرز زندگی اور رویوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے مہذب انسانوں کے معاشرہ میں ریاستی جبر تلے سسکتے ایک انسان کی کمزور پڑتی آواز میں میرا دم گھٹ رہا ہے جیسے الفاظ ان ممالک میں رائج نظام کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جبر کا نظام جہاں بھی ہو قابل نفرت اور قابل مذمت ہے۔ اور زندہ معاشروں میں جب بھی مظلوم کے ساتھ ظلم ہوا تو صدائے احتجاج ضرور بلند ہوئی ہے اس کے نتیجے میں عرب سپرنگ اور موجودہ حالات میں جلتے ہوئے امریکہ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میرا دم گھٹ رہا ہے جیسی کمزور، نحیف اور بے بسی میں دبی آوازیں بنیادی طور پر سماج کی بے حسی کے سناٹے میں وہ بلند چیخیں ہوتی ہیں کہ الامان الحفیظ، ان سے تو کانوں کے پردے پھٹنے لگتے ہیں۔

امریکی ریاست میں سفید فام پولیس افسر ڈیریک شاوین کے گھٹنے کے نیچے دم توڑنے والے 46 سالہ سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی بے بسی کی موت نے لوگوں کو مشتعل کر دیا ہے۔ ایک شخص کی موت نے امریکہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ امریکہ کی کم وبیش ہر ریاست میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے توڑ پھوڑ عروج پر ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہے۔ مشتعل مظاہرین نے مذکورہ تھانہ جہاں پر قاتل پولیس اہلکار تعینات تھے کا گھیراؤ کر لیا جس پر پولیس اہلکار اپنی گاڑیوں میں تھانے کے گیٹ توڑ کر بھاگ نکلے اور مشتعل مظاہرین نے تھانے کو آگ لگا دی۔

اس فعل کو ریاست بغاوت کہہ رہی ہے جبکہ مظاہرین اس کو انقلاب کہہ رہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرئے گا کہ یہ بغاوت ہے یا انقلاب تا ہم حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ امریکہ کی ریزرو فوج نیشنل گارڈ جس کو بدترین ہنگامی حالات میں طلب کیا جاتا ہے کو بلانے کا فیصلہ ہو چکا ہے بلکہ ریاست اٹلانٹا میں تو نیشنل گارڈ کو تعینات بھی کر دیا گیا ہے اور یہ فیصلہ امریکہ کے اندر کے حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہا ہے۔

شاید ان ہی حالات کے پیش نظر فیض احمد فیض نے اپنی شہرہ آفاق نظم میں کہا تھا کہ یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق، نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی۔ گویا ظلم کے خلاف احتجاج اور اس کے خاتمے کے لیے جدوجہد انسانی فطرت کا حصہ ہے انسانی شعور کی معراج ہے۔ نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا انسان کے مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ زندہ ضمیر لوگ ظلم اور نا انصافی کے خلاف نا صرف بولتے ہیں بلکہ عملی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔

کچھ سال قبل شمالی افریقہ کے ملک تیونس میں بھی ایک سرکاری اہلکار فیدہ حمدی نے نے ٹھیلے پر سبزی فروخت کرنے والے شخص بوالعزیزی کا ٹھیلا ضبط کر لیا جس پر بوالعزیزی نے بطور احتجاج خود سوزی کرلی۔ اس خودکشی کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور ان ہنگاموں نے پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس قدر ابتری پھیلی کہ کئی بادشاہوں کے تخت لرزنے لگے۔ محلات میں ہونے والے فیصلے عوام نے جب سڑکوں پر اپنے ہاتھوں میں لیے تو گویا جیسے بھونچال سا آ گیا ہو۔

عوامی طاقت کے امریکہ میں نظر آنے والے مظاہرے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ ان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو 1986 میں فلپائن میں پیلا انقلاب آیا جس کو عوامی قوت انقلاب کا نام دیا گیا۔ 2003 میں جارجیا میں ایڈورڈ شیورڈناڈزے کی حکومت کا تختہ گلاب انقلاب کے ذریعے الٹ دیا گیا۔ 2004 میں یوکرین میں اورنج انقلاب حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ کرغیزستان میں ٹیولپ انقلاب یا گلابی انقلاب آیا۔ 2005 میں لبنان میں شامی فوج کی واپسی کے لیے انقلاب آیا۔

اور اسی سال عراق میں جمہوریت کے قیام کے لیے جاری عوامی جدوجہد کو جامنی انقلاب کا نام دیا گیا۔ خود پاکستان کی مثال ہی لے لیں جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے ملک بھر کے وکلا نے بھرپور تحریک چلائی۔ مشرف نے 3 نومبر 2007 کوملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تمام ججز کو معطل کر دیا تو وکلا نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ججز بحالی کی عملی جدوجہد شروع کردی اور بالآخر 21 مارچ 2009 کو دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے اور یہ سب عوامی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ طے ہوگیا کہ حقوق کی خاطر جدوجہد کرنی پڑتی ہے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

ریاستی جبر کے خلاف مذاحمت اور ظلم کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی سب سے بڑی مثال مقبوضہ کشمیر ہے جہاں پر ریاست کی طرف سے گزشتہ سات ماہ سے لاک ڈاؤن ہے اور مقبوضہ وادی کے مسلمان گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ ریاست کی طرف سے کون سا ظلم ہے جو مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا اور کون سی اذیت ہے جو ان کو نہیں دی گئی۔ با پردہ خواتین کی عزتوں کی پامالی سے لے کر بے گناہ کشمیری نوجوانوں کی سر بریدہ لاشوں نے کشمیریوں کو خون کے آنسو رلائے ہیں۔

اور اس سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ امت مسلمہ کی نمائندہ تنظیم او آئی سی سوائے بیان بازی کے کچھ نا کرسکی اور ہم بھی مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایام میں ہر جمعہ کو آدھا گھنٹہ دھوپ میں احتجاج کے سوا کچھ نا کرسکے۔ کیا ہماری صرف یہی ذمہ داری تھی جو ہم نے ادا کی یا اس کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کے لیے کوشش کریں کہیں ایسا نا ہو کہ کسی بد نصیب لمحوں میں ہمیں بھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی درد میں ڈوبی آواز سنائی دے کہ ”ہمارا دم گھٹ رہا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments