انڈیا میں ‘بائیکاٹ چین’ کی مہم، مگر اس سے چینی سرمایہ کاری کیسے متاثر ہوگی


بھارت اور چین

AFP CONTRIBUTOR
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں انڈیا کو چین کی زیادہ ضرورت ہے۔

انڈیا اور چین کی سرحد پر جاری کشیدگی کے درمیان بعض انڈین صارفین نے سوشل میڈیا پر چینی سازو سامان اور سافٹ وئير کے بائیکاٹ کی مہم شروع کردی ہے۔

حالانکہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ مہم پروان چڑھنے سے پہلے ہی تھوڑی کمزور پڑ گئی ہے۔

چین پر کورونا وائرس کو پھیلانے کے الزامات تو لگ ہی رہے ہیں حالانکہ اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

نیپال انڈیا تنازع: نئے نقشے کی منظوری تعلقات پر کیسے اثر انداز ہوگی؟

نریندر مودی کا دورۂ اروناچل پردیش، چین سیخ پا

انڈیا اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیک وقت ٹکراؤ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

لیکن ‘ایل اے سی’ یعنی حقیقی لائن آف کنٹرول پر ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان جیسے جیسے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے، انڈیا میں چین مخالف جزبات تیز ہورہے ہیں۔

خود کو قوم پرست کہنے والوں لوگوں کی جانب سے اس مہم کے آغاز سے ہوسکتا ہے کہ مودی حکومت وقتی طور پر فائدہ ہوا ہو کیونکہ خود نریندر مودی نے حال ہی میں ‘خودمختاری’ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ اس مہم کے پیچھے اصل وجہ جو بھی ہو۔ چین کے سامان کے بائیکوٹ کی مہم سے یہ زیادہ اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ انڈیا کے بازار میں چین کی موجودگی ایک ایسی حقیقت جس سے بچنا تقریبا نا ممکن سا لگتا ہے۔

انڈیا کے ہر باورچی خانے، گھر، اور بیڈروم میں ائیر کنڈیشنر، مکسر، موبائل فون، ٹی وی، ائیر پیوریفائر، ڈیجٹل والٹ، کسی نہ کسی روپ میں چین موجود ہے۔ یہاں تک نہانے کے لیے استعمال ہونے والی بالٹیاں بھی بعض اوقعات چین کی ہوتی ہیں۔

حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ‘ لوکل کے لیے ووکل’ یعنی انڈیا میں بنائے گئے سامان کا استعمال کرو، کے نعرے کے تحت بھلے ہی فلپکارٹ اور ایمزون نے انڈیا میں بنائے گئے سازو سامان کو زیادہ فروخت کرنا شروع کردیا ہو لیکن کاروبار کی دنیا ابھی بھی اس کے حق میں نظر نہیں آرہی ہے۔

ٹک ٹاک

TIKTOK
‘بائٹ ڈانس’ ٹک ٹاک کی پیرینٹ کمپنی ہے جو چین کی ہے اور یوٹیوب کے مقابلے انڈیا میں بے حد مقبول ہے۔

انڈیا میں چین ہر جگہ موجود

چین نے انڈیا میں تقریباً چھ ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کر رکھی جبکہ پاکستان میں اس کی سرمایہ کاری 30 ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے۔

ممبئی کے بیرونی معاملات کے تھنک ٹینک ‘ گیٹ وے ہاؤس’ نے انڈیا میں ایسی 75 کمپنیوں کی شناخت کی جو ای کومرس، فٹ نیٹ، میڈیا/سوشل میڈیا، ایگریگیشن سروس، اور لوجسٹک جیسی سہولیات دیتی ہیں اور ان کمپنیوں نے چین کی سرمایہ کاری ہے۔

اسی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کی 30 سے 18 یونیکورن میں چین کی بڑی حصہ داری ہے۔ یونیکورن ایسے نجی سٹارٹ اپ کو کہتے ہیں جس کی قیمت ایک ارب ڈالر ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تکنیکی شعبے میں چین کی سرمایہ کاری کرنے کی قابلیت کی وجہ سے چین نے انڈیا پراس شعبے میں قبضہ کرلیا ہے۔

مثال کے طور پر ‘بائٹ ڈانس’ ٹک ٹاک کی پیرینٹ کمپنی ہے جو چین کی ہے اور یوٹیوب کے مقابلے انڈیا میں بے حد مقبول ہے۔

حالانکہ انڈیا نے حال ہی چین کی سرمایہ کاری پر تھوڑی لگام دینے کی کوشش کی ہے۔ حال ہی اس نے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری یعنی ‘فورین ڈاریکٹ انوسٹمنٹ’ کے معاہدے کو یہ کہ کر ٹال دیا کہ بھارت کے ساتھ سرحد سے منسلک ممالک کی سبھی سرمایہ کاری کے منصوبوں کو سرمایہ کاری کرنے سے پہلے منظوری کی ضرورت ہوگی۔

اس نئے فیصلے نے چین سرمایہ کاروں کی تشویش میں اضافہ تو کیا لیکن یہ فیصلہ اس سرمایہ کاری کو متاثر نہیںکرے گا جو اس برس اپریل سے پہلے کی جاچکی ہیں۔ چینی سرمایہ کاری کرنے کی حکومت کی نئی پالیسی کے باوجود، بھارت میں چین کی موجودگی ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

اس کے دوا کے لیے خام مال جیسے ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس( اے پی آئی) کہتے ہیں چین سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ کروسین کے لیے درکار اے پی آئی پیراسٹامول بھی چین سے آتا ہے۔ اصل میں پارلیمان میں انڈین حکومت کے ایک بیان کے مطابق بھارت کی دوا بنانے والی کمپنیاں 70 فی صد اے پی آئی چین سے درآمد کرتی ہیں۔

19-2018 کے مالی برس میں ملک کی ادویات بنانے والی کمپنیوں نے چین سے 4۔2 ارب ڈالر کی قیمت کی ادویات اور اے پی آئی در آمد کی ہیں۔

ادویات کی برآمدات کے حوالے سے انڈیا کا شمار اہم ممالک میں ہوتا ہے۔ 19-2018 کے مالی برس میں ملک میں ادویات کی برآمدات 11 فی صد بڑھ کر 2۔19 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ انڈیا چین کے خام مال کو ترجیج دیتا ہے کیونکہ بے حد سستا ہے اور آسانی سے مہیا بھی ہوجاتا ہے۔

سچوآن یونیورسٹی سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر ہوآنگ ینسانگ نے بی بی سی کو بتایا، ” چین میں خام مال مہیا کرانے والی کمپنیاں بھارت کی ادویات بنانے والی کمپنیوں کے بغیر چل نہیں پائیں گی”۔

ادویات

متعدد ماہرین کا خیال ہے تجارت میں عدم توازن کی پرواہ کیے بغیر انڈیا چین سے سامان درآمد کررہا ہے۔

چینی درآمدات پر انحصار

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں انڈیا کو چین کی زیادہ ضرورت ہے۔ان دونوں کے درمیان ہونے والی باہمی تجارت میں فرق یہ اور واضح کردیتا ہے۔ گزشتہ برس باہمی تجارت کی مالیت تقریبا 90 ارب ڈالر تھی جس میں تقریبا دو تہائی حصہ بھارت میں چینی درآمدات کا تھا۔

پروفیسر ہوآنگ یونسانگ کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کا آپسی مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے ، اسے آسان طریقے سے کہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہماری معیشت کی ترقی الگ الگ سطح پر ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دونوں جانب سے تحمل اور دور انداز پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو تجارت میں جو توازن کی کمی ہے اس سے بھارت کا فائدہ ہورہا ہے۔ چین سے سستا سامان درآمد کرکے انڈیا نے اپنی قیمیتی فورین کرنسی ریزرو کو بچا کر رکھا ہے اور اپنے کرنسی کی قیمت میں بہتری کی ہے”۔

لیکن متعدد ماہرین کا خیال ہے تجارت میں عدم توازن کی پرواہ کیے بغیر انڈیا چین سے سامان درآمد کررہا ہے۔ دلی میں تھنک ٹینک سوسائٹی فار پالیسی رسرچ اینڈ ایمپاؤرمنٹ کی ڈاکٹر مہ جبین بانو کا کہنا چین انڈیا جیسے وسیع بازار کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے، ” ہم چین سے درآمدات پر منحصر ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چین، بھارتیہ بازار کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے دور نہیں رکھ سکتا ہے”۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سکول آف انٹرینشنل سٹڈیز کے پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ کئی ممالک چین کے ساتھ بازار کی مالیت میں عدم توازن سے پریشان ہیں، ” بھارت کے ساتھ چین کی تجارت گزشتہ 15 سالوں میں تقریبا ایک طرفہ ہوگیا ہے اور یہ حال چین کے ساتھ تجارت کرنے والے بیشتر ممالک ہے”۔

پروفیسر ہوآنگ یونسانگ کا خیال ہے کہ دونوں مماک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں، ” چین بھارت کو نظرانداز نہیں کرسکتا ہے۔ ایک عالمی معیشت میں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ میں چین اور انڈیا کے رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت سوچ کو فروغ دینے کے حق میں ہوں۔ خاص طور پر جب کوئیڈ 19 کی وجہ دنیا اتنا کمزور ہوچکی ہے۔

اگر فیصلہ کرنے والے معیشت کے مقابلے جغرافیہ سے متعلق ہونے والی سیاست کو ترجیج دینے لگیں تو دنیا کو درکار سپلائی کا سلسلہ ضرور متاثر ہوگا”۔

بھارت اور چین

بائیکوٹ مہم زیادہ معثر نہیں؟

کیا چینی سازوسامان کے بائیکوٹ کی مہم سے دونوں ممالک کے رشتے متاثر ہوسکتے ہیں؟ اس سوال پر پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا کہ ہے اس کے سیاسی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ” انڈیا کے چین کے بائیکوٹ کا چین پر معاشی سے زیادہ سیاسی سطح پر اثر ہوگا۔ چین پہلے ہی کوئیڈ 19 کی وباء کے پھیلاؤ کے حوالے سے عالمی غصے کا سامنا کررہا ہے”۔

ڈاکٹر مہ جبین بانو کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری مہم ایک جزباتی غصہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ” سوشل میڈیا پر کہی جانے والی باتیں ہمیشہ تھوڑے وقت کے لیے ہوتی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ اس مہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سیاسی رشتے خراب ہونگیں”۔

لیکن انڈیا میں جاری اس مہم پر چین کا کیا ردعمل ہے؟

پروفیسر ہوآنگ یونسانگ کہتے ہیں کہ اس پر چین کا کوئی ردعمل نہیں ہے، ’انڈین سوشل میڈیا پر چین مخالف مہم جس میں چینی سافٹ وئیر کو ہٹانے سے لے کر چینی پروڈکٹس کے بائیکوٹ تک کی بات کی جارہی ہے اس پر چینی عوام اس پر بہت زیادہ دھیان نہیں رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انڈیا میں کیا ہورہا ہے۔ اس بارے میں چین کی جانب سے ردعمل دینے کے امکان نہ کے برابر ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp