یہ آصف فرخی کی علالت نہیں عدالت تھی


سب آصف فرخی پر لکھ رہے ہیں، ان کے ساتھ بیتی یادیں شیئر کر رہے ہیں ان کے آخری لمحات تفصیل سے بیان کیے جار ہے ہیں۔ کرونا کے دنوں میں سماجی رابطے ختم ہو گئے۔ کوئی کسی کے کاندھے پر سر رکھ کر رو سکتا ہے نہ ان کے پیاروں کو گلے لگا کر دلا سا دے سکتا ہے۔ ان کے پیارے کون؟ وہ سب جو ان کے ساتھ رہتے تھے، ان کے مزاج آشنا تھے۔ اور وہ خونی رشتے جو اپنے رشتے نبھاتے دور دیس جا بسے تھے۔ وہ جو ان کے ادبی حوالوں سے ساتھ تھے۔ لیکن ان سے کہیں بڑی تعداد ان کے گمنام چاہنے والوں کی تھی۔ اور ’ہم سب‘ پر ہم سب تھے جو ان کی تحریریں پڑھتے تھے، سنتے تھے۔

’ہم سب‘ کے پلیٹ فارم پر ہمیں آصف فرخی بڑی سہولت سے ہر وقت دستیاب تھے۔ ’ہم سب‘ کے ہمراہ ہم نے ان کے ساتھ بہت سے یادگار پل بتائے۔ گو کہ ان کی تحریریں مختلف عنوانات لیے ہوتی تھیں۔ لیکن اگر دیکھیں تو وہ اپنی خود نوشت لکھ کر جا چکے۔

آصف فرخی کو ادبی کانفرنسوں میں سنتے تھے، ان کی تحریریں کتابوں میں پڑھتے تھے، کہیں سر راہ نظر آ جائیں تو ان سے جا کر ملنے کا حوصلہ کبھی اپنے اندر نہ پایا۔ کہ اپنے اندر اور اپنے الفاظ میں وہ درو بست بھی نہ پاتے تھے کہ جس کی بنا پر خود کو ان کے مداح کے شایان شان کہہ سکیں۔

فیس بک پر آصف اسلم ہمارے دوست تھے، مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ ہی آصف فرخی ہیں۔ ایک بار ہماری کسی تحریر پر انہوں نے حوصلہ افزا کمنٹ کیا تب ان کی ٹائم لائن پر جا کر انکشاف ہوا کہ وہی آصف فرخی ہیں۔ اپنی تحریر پر ان کا کمنٹ دیکھ کر یقین نہ آیا۔

جب انہوں نے امینہ سید کے ساتھ گورنر ہاؤس میں پہلا ادبی میلا منعقد کیا، تب مشاعرے میں احمد نوید کو بھی مدعو کیا۔ مشاعرہ گاہ میں ایک ایک کا خود استقبال کر رہے تھے۔ احمد کو دیکھتے ہی ان کی طرف بڑھے اور جاندار مسکراہٹ کے ساتھ ان کا اور ہمارا شکریہ ادا کیا۔

اسی دوران ’ہم سب‘ پر ہماری خود نوشت آنے لگی۔ قلم سے دوستی ہو جائے تو قلم دوست ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔

کراچی کی ادبی محافل میں بڑے بڑے نامور ادیب اور شاعر اس کا تذکرہ کرتے تو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی اس خود نوشت کو پذیرائی مل رہی تھی۔ شیر شاہ سید صاحب بھی اسے پڑھ رہے تھے۔ ان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں ہم ان کی کتاب پر تبصرہ بھی فرما چکے تھے۔ ایک بار شاہ صاحب کا فون آیا کہ وہ ہم سے اپنی فیملی کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بڑے بیٹے رشی کے ساتھ طارق روڈ پر واقع ایک چائنیز ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ شاہ صاحب کے ساتھ آصف فرخی بھی موجود تھے۔

شاہ صاحب کہنے لگے کہ جب میں نے انہیں آپ سے ملاقات کا بتایا تو انہوں نے کہا وہ بھی آئیں گے۔ آپ لوگ گپ شپ کریں کھائیں پئیں، ہم نے چونک کر انہیں دیکھا۔ میں آپ سے درمیان میں سوالات کرتا رہوں گا، بالکل مخل نہیں کروں گا۔
ان کی اس بات پر شاہ صاحب نے جاندار قہقہہ لگا یا۔

شاہ صاحب نے اپنی فیملی سے ہمارا تعارف کرایا۔

آصف فرخی نے بتایا کہ نا صرف وہ ہماری آپ بیتی شوق سے پڑھتے ہیں بلکہ کئی لوگوں کو انہوں نے متوجہ کیا ہے۔ اس وقت تک کوئی بارہ تیرہ اقساط ہی آئی تھیں جو کچھ شائع ہو چکا تھا اس سے متعلق آصف فرخی ہم سے سوالات کرتے رہے۔

یہ خیال کیوں آیا؟ احمد نوید نے اس کی اجازت کیسے دی؟ اتنے خطرناک حالات میں خود کو ان کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیسے کیا۔
شاہ صاحب کو ’پھر کیا ہوا‘ کا تجسس تھا ہمارا منہ کھلنے سے پہلے ہی آصف فرخی نے ٹوک دیا۔ نہیں نہیں ابھی نہ بتائیے تجسس ختم ہو جائے گا۔

رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے گھر کا ایڈریس سمجھایا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ان سے کہوں آپ نے اتنے سوال کیے، اب صرف ایک تصویر کا سوال ہے۔ مگر یہ کہنے کی ہمت نہ ہو سکی۔
وہ چلے گئے تھوڑی دیر بعد ہم سب بھی ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔ وہ یاد گار ملاقات اب بھی ایک خواب ہی لگتی ہے۔

ہم سب پر ان کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھ رہی تھی۔ ایک روز دو تین اقساط پر مشتمل ان کا سفر نامہ پڑھا کہ وہ اکیلے ہی پاکستان کے ناردرن ایریاز کی سیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے سیر کے دوران اپنی بہت سی تصاویر شیئر کیں۔ ہر تصویر میں وہ ہنستے ہوئے نظر آئے۔ بے بات ہنسی، خود کو کسی منظر کے سامنے کھڑا کرو، خود اپنے چہرے کے تاثرات بدل کر دانت نکالو اور کلک کر دو۔ خود تصویر کشی کر لو، اب دیکھ لو آصف فرخی خوش ہیں، پر آنکھوں کی ویرانی بدستور قائم تھی۔

پھر ایک روز مکان تلاش کرنے کی روداد پڑھی۔ افتخار عارف نے معتبر ہونے کے لیے گھر کی دعا کی تھی یہاں ایک معتبر مکان کی تلاش میں مصروف تھا۔
ان کی تحریریں تواتر سے چھپ رہی تھیں، لکھنا، پڑھنا اور ان دو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پڑھا نا، سو یہ ہی ان کی روزگاری تھی۔

ایک روز احمد نے بتایا کہ آصف فرخی ہمارے گھر آئیں گے۔ ذرا میں بیٹھک سمیٹ لوں لیکن میں نے کچھ نہ سمیٹا۔ اپنی ذات میں بکھرے لوگ، زمانے کی بے ڈھنگی چال سے نبرد آزما سمٹی اور بکھری چیزوں کو نوٹس نہیں کرتے۔

شام چار بجے وہ ہمارے گھر موجود تھے۔ ان کی ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے ہم نے احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
آپ نے آئیڈیا اچھا دیا ہے، اب ہم بھی اکیلے سیر کو جائیں گے۔ ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ صاف دیکھی جا سکتی تھی۔

احمد کی کتاب کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد کہنے لگے :
آپ کی شاعری سنجیدہ لوگوں کے لیے ہے، ہم کلفٹن میں جہاں سبین محمود کا آفس تھا، وہاں آپ کے لیے نشست رکھیں گے۔
بس اب ان کی بھی کتاب بھی آ جانی چاہیے۔ انہوں نے ہماری طرف اشارہ کر کے احمد سے وعدہ لینے والے انداز میں کہا۔

جی بالکل یہ ہی ارادہ ہے۔
پیش لفظ میں لکھوں گا۔ آصف فرخی نے اچانک کہا، اور خوشی کے مارے ہماری زبان گنگ ہو گئی۔ ہمارے حمق زدہ منہ سے صرف ایک ہی بچکانہ لفظ نکل سکا۔

سچی!
سرگزشت میں واقعات کو آپ بہت تیزی سے بیان کر رہی ہیں، آہستہ آہستہ آرام آرام سے لکھیں۔ اسے سمیٹنے کی جلدی نہ کریں۔

انہوں نے مشورہ دیا۔
احمد سگریٹ پینے کے لیے بالکنی میں گئے تو آصف بولے :
انہیں کوئی اعزاز یا ایوارڈ ملا؟

ہم نے کہا ”یہ ہی اعزاز ہے کہ انہیں کوئی اعزاز نہیں ملا۔
حیرت سے بولے، واقعی!
پھر احمد کی کتاب کی ورق دانی میں مصروف ہو گئے۔

جب وہ جانے لگے، تب ہمیں ان کے ساتھ تصویر کا خیال آیا لیکن ہمیں سیلفی لینی نہیں آتی۔ اور کوشش کر بھی لیں تو کہیں کیسے، سو ان سے صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ احمد کے ساتھ ایک تصویر ہو جائے۔

انہوں نے احمد کی کتاب پکڑی اور ہم نے ان کی تصویر محفوظ کر لی۔
مجھے لگتا تھا انہیں اب مکان مل گیا ہے، لیکن وہ مکان کو مل کر نہیں دے رہے۔ مکان سے باہر رہنے کو ان کے پاس سو وجوہات تھیں۔

ان کے شب و روز کے بارے میں جو کچھ جانا، ان کی تحریروں سے ہی جانا۔ مکان میں رہتے ہوئے وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے۔ تنہائی سے ان کی پکی دوستی تھی، لیکن یہ دوستی یک طرفہ تھی۔ وہ اپنی مرضی کے مالک تھے۔ جاگتے رہنا ہے، پڑھتے رہنا ہے، دوا بھول جانی ہے، ڈاکٹر کے پاس تب ہی جانا ہے جب تکلیف انہیں مجبور کر دے۔ کوئی ان کی حاجت روائی کے لیے پیچھے ہی پڑ جائے تو کتابوں کے سوا کوئی فرمائش نہ کی۔

پھر سنا کہ اس بار آصف فرخی، امینہ سید کا دوسرا لٹریری فیسٹیول آرٹس کونسل میں ہو رہا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب چین کے شہر ووہان میں کرونا پھیل چکا تھا۔ ایک روز ہم اسکول سے آئے تو احمد نے بتایا کہ آصف فرخی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں بلایا ہے اور کہا ہے کہ عفت کو ضرور لے کر آئیں۔ ایک سر پرائز ہے۔ تھکن کے باوجود اور جب کہ رات کو اسکول کے بچوں کی بون فائر میں بھی شرکت کرنا تھی۔ ہم تیار ہو گئے۔ راستے میں احمد نے بتا یا کہ احمد شاہ نے فون پر بتایا ہے کہ مجھے ادبی ایوارڈ کے ساتھ دو لاکھ کیش کا اعلان کیا جائے گا۔ مگر آصف کو نہ پتہ چلے کہ ہمیں پتہ چل چکا ہے۔

کچھ گھر سے تاخیر اور کچھ راستے میں بے ہنگم ٹریفک کی کی وجہ سے ہم پنڈال میں پہنچے تو پروگرام اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ سامنے اسٹیج کی نشستوں پر آصف فرخی کے ساتھ دیگر سیاسی و ادبی شخصیات براجمان تھیں۔ ڈائس پر اب کسی اور شخصیت کو مدعو کرنے سے پہلے تمہید باندھی جا رہی تھی۔ سارا پنڈال بھرا ہوا تھا۔ پہلی رو میں کونے والی نشست سے ایک خاتون اٹھ کر گئیں تو ہم تیزی سے اس طرف بڑھے احمد نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔

آصف فرخی ڈائس پر آئے اور ہمارے طرف دیکھ کر بولے اس سے پہلے کہ فلاں صاحب مائک سنبھالیں میں اس ادبی فیسٹیول کی جانب سے اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ ادب فیسٹیول پاکستان کی جانب سے میر احمد نوید کو اس سال کا ایوارڈ ڈھائی لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جا تا ہے۔ ہمیں تو دو لاکھ کی اطلاع تھی۔ میں نے احمد کی طرف دیکھا، اور ہنستے ہوئے تالیاں بجاتی رہی۔ وہ سرپرائز اسی لیے رکھنا چاہتے تھے تاکہ ہمارے چہرے پر خوشی دیکھ سکیں۔ میں نے شاید اوور ایکٹنگ کر دی تھی۔

تقریب کے اختتام پر وہ ہمارے پاس آئے مبارک باد دی اور بولے۔ عین وقت پر مجھے بتایا گیا کہ انعامی رقم میں پچاس ہزار کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ورنہ انعام تو دو لاکھ تھا۔ اس ایوارڈ نے آپ کا اعزاز چھین لیا۔

ہم نے انہیں حیرت سے دیکھا تو بولے۔
آپ نے کہا تھا نا کہ ان کا اعزاز یہ ہے کہ انہیں کوئی اعزاز نہیں ملا۔

بس اب اگلے سال آپ کی کتاب یہاں ہو نی چاہیے۔ انہوں نے بک اسٹالز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر احمد کی طرف دیکھ کر بولے : آپ کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی جائے گی جہاں آپ کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ایوارڈ دیا جائے گا۔

کئی دنوں سے سب کی دیکھا دیکھی ان کے کے ساتھ بیتے کچھ لمحات اور یادیں جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہوں، خیالات اور واقعات میں ترتیب بن کے نہیں دے رہی۔ سوچتی ہوں ان پر مضمون کبھی بھی لکھا جا سکتا ہے۔ ایک سال بعد دو سال بعد یا کسی بھی عہد میں۔ وہ ہر عہد میں ایسے ہی یاد کیے جائیں گے۔ عہد کی پاسداری تو انہوں نے بھی خوب نبھائی۔ جب حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی، کبھی سختی، لیکن عوام کی جانب سے بے پروائی کا سلسلہ جاری تھا۔ ان کا فون آیا کہ وبا کے بعد تقریب منعقد کی جائے گی۔ لیکن ایک دو دن میں چیک آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔ اور کچھ ہی دنوں بعد رقم موصول ہو گئی۔

وبا کے موسم میں امید، خوف، مایوسی میں دن گزر رہے تھے۔ ’ہم سب‘ پر تالا بندی کے دوران ان کے وڈیو روزنامچے تواتر سے شائع ہو رہے تھے۔ صبح کے وقت ناشتے کی تیاری کے دوران میں یہ روزنامچے سنا کرتی۔ آخری روزنامچے میں انہوں نے اپنی علالت اور عدالت کے علیل فیصلے کا ذکر کیا۔ جن کے حسن میں کرشمہ سازی تھی وہ ہی عدالت کا نام علالت اور علالت کا نام عدالت رکھ سکتے تھے۔ پر اب میں کیا کروں آصف فرخی نے تو عمر کی نقدی کے ساتھ ہمارا حساب بھی چکتا کیا۔

کچھ دن پہلے احمد کے نمبر پر فون آیا۔ وہ سو رہے تھے۔ آصف کا نام دیکھ کر ہم نے فون ریسیو کیا، بولے : احمد نوید سے پوچھنے کے لیے فون کیا تھا چیک مل گیا۔ ہم نے ہنستے ہوئے بتایا کہ مل بھی گیا، بھنا بھی لیا۔

کہنے لگے وبا ختم ہو جائے تو ان کے اعزاز میں تقریب رکھیں گے۔
آصف فرخی! تقریب تو ہولی، آپ رفتگاں کی طرف سے سجائے گئے استقبالیے میں شرکت کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments