گُھٹنوں کے نیچے ختم ہوتی زندگی



جارج فلائیڈ کی زندگی کا کھیل صرف آٹھ منٹ اور چھیالیس سیکنڈ کا بنا دیا گیا، اس کی سانسوں کو روکا گیا، جب کہ وہ دبی آواز میں بول بھی رہا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے سانس نہیں آ رہی۔ پر پولیس افسر کا اس سے کیا لینا دینا، کہ کوئی زندگی اور موت کے بیچ کی اذیت محسوس کر رہا ہے، جب کہ اس مرنے والے نے کوئی بڑا گناہ نہیں کیا، وہ کوئی دہشت گرد، کسی جنگجو تنظیم کا ممبر نہیں ہے۔ اس کا قصور تھا تو بس اتنا سا کہ وہ سیاہ فام تھا، اس کی جلد گوری ہونے کہ بجائے سیاہ کالی تھی، جو اسے اپنے اماں ابا سے وراثت میں ملی تھی۔

پر اسے کیا پتا تھا کہ یہ وراثت میں ملی کالی چمڑی ایک دن اس کی جان جانے کا سبب بن جائے گی؟ 46 سالہ جارج فلائیڈ کوئی پہلا سیاہ فام شخص نہیں جس سے امتیازی سلوک اس قدر برتا گیا کہ اس کی جان تک لے لی گئی۔ ہمیشہ سے ہی ان گوروں کہ سامنے ان سیاہ فام لوگوں کی اہمیت (black dog) کی سی تو ہے، تبھی تو وہ کچھ فائیو، سیون اسٹار ہوٹلز کے ویلکم گیٹ پہ یہ لکھتے تھے کہ بلیگ ڈاگس کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ گورے ان کو اپنے برابر سمجھنا تو دور کی بات پر بڑی مشکل سے انسان سمجھتے ہیں۔

امریکیوں کہ دل میں بھڑکی نسل پرستی کی آگ تب بھی بجھ نہ پائی تھی، جب ایک سیاہ فام شیدی براک اوباما ان کا دو دفعہ صدر منتخب ہوئا تھا، اور بڑے فخر سے اپنی بیوی مشعل اور بچوں کہ ساتھ گھومتا تھا۔ اور گھومے بھی کیوں نہ، کیا کالا رنگ ہونا گناہ ہے، یہ تو قدرتی طور پہ زمینی حقائق و آب و ہوا کے اعتبار سے کچھ لوگ گورے، کچھ کالے، کچھ سانولے تو کچھ ہلکے گلابی اور لال ہوتے ہیں۔ پھر کیا یہ ان کا پیدائشی قصور مان لیا جائے، جب کہ اسلام کہ پیغمبر حضرت محمد مصطفٰے صلعم نے حجۃ الوادع کے آخری خطبے میں صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ”کسی کالے کو کسی گورے پہ، کسی گورے کو کالے پہ رنگ و نسل کہ اعتبار سے کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔“ پر وہ سب تو چھوڑیں، برابری کہ حقوق دینا تو دور کی بات یہاں معاملہ ایک قتل کا ہے، ایک ایسا شخص جو پولیس افسر کے ہاتھوں قتل ہوئا ہے، اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ، اس نے دکاندار کو کے وقت 20 ڈالر کے جعلی نوٹ دیے، اور دکاندار نے فوراً پولیس میں شکایت درج کروائی، پھر تو پولیس نے اس کی سانس ہمیشہ کے لیے روکنے میں دیری نہ کی۔ جعلی نوٹوں سے ادائیگی اتنا سنگین جرم یا کبیرہ گناہ نہیں تھا، ممکنہ طور پہ غلطی بھی ہو سکتی ہے، پر اسی معمولی گناہ کی وجہ سے ایک انسان کو مار دیا گیا۔

جارج کہ امریکی ریاست منی اپپلس میں مارے جانے کہ بعد امریکہ کی مختلف ریاستوں میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی، سینکڑوں ہزاروں لوگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پولیس کے خلاف سراپا احتجاج تھے، نعرے لگا رہے تھے، کیے مظاہرین نے تو توڑ پھوڑ بھی کی جس کہ نتیجے میں مختلف شہروں پہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ پر اس سے کیا جارج کے جسم میں اس کی روح واپس آ جائے گی، جو اس کی کالی چمڑی ہونے کی وجہ سے نکال دی گئی؟ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، امریکہ میں ایسے واقعات گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں، کیونکہ وہاں سخت گیر کارروائی نہیں ہوتی، اور لوگوں کے ذہنوں سے سیاہ فام دشمنی نہیں مٹ پاتی۔

افریقہ سے لائے گئے سیاہ فام غلاموں نے امریکہ کہ اندر ریلوے لائن بچھانے سے لے کر، مکانات اور سڑکوں کی تعمیر تک، محنت سے امریکہ کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا، یہی غلام کپاس کے کھیتوں میں کام کر کے، زراعت میں سدھار لانے لگے، پر مجال ہے جو امریکی تواریخ اور نصاب میں ان سیاہ فام لوگوں کا ذکر ہو، کیوں کہ ان کہ مطابق یہ کالے ہیں ہی غلام، اور ان کے نزدیک سیاہ فام لوگوں کی محنت کو سراہنا کوئی ضروری نہیں۔

امریکہ میں نسلی امتیاز کی بنا پر یہ لکیر کھینچی گئی ہے، کہ جو بھی کالے ہیں، ان کی جگہ گوروں سے نیچے اور کمتر ہے۔ عام طور پہ بھی جو جرم ہو، اس میں سفید فام کہ مقابلے میں سیاہ فام کی سزا زیادہ رکھی گئی ہے، تبھی تو امریکی جیلوں میں آدھے سے زیادہ کالے ہیں، اور جس کی بنا پر جارج کو صرف 20 ڈالر کہ جعلی نوٹ دینے پر اس کہ کاندھے پر گھٹنے رکھ کر مارا گیا۔ امریکہ میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو سیاہ اور سفید کو ہر ادارے، پر مقام پہ برابری دی۔

حال ہی ہوئے مظاہروں سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ ٹرمپ مخالف الیکشن مہم ہونے کہ بجائے، ان احتجاجوں کا مقصد صرف سیاہ فام کے حقوق کے لیے جنگ لڑنا ہوگا۔ پچھلے دور کے مقابلے میں ابھی دنیا بہت آگے آ چکی ہے، اگر یہی سلسلہ امریکہ میں چلتا رہا تا، کسی دن اس کا رعب، دبدبا اور ہٹ ڈھرمی بھی گھٹنے تلے آ کر دب جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments