کرائے کے مومنین


جب ظالم اور ظلم کی تفریق ہونے لگے تو پھر جدوجہد کے زاویے بھی بدل جاتے ہیں۔ مسلمان جسد واحد کی مثالیں دینے والے مومنین کشمیر و فلسطین پر چیختے نظر آتے ہیں مگر یہی ظلم اپنے ہی ملک کے کسی صوبے میں ہوتا ہے تو مومنین جسد واحد پر تاویلیں پیش کرنا شروع کرتے ہیں۔

مطلب کرائے کے مومنین ہیں جب جہاں جس کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کروانا ہو تو مومنین لاکھوں کی تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں اور جہاں خاموش رہنے کا حکم صادر ہو تو کرائے کے مومنین جسد واحد کے اصول کو بھی یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔ ویسے ہمارے ملک میں ہر نظریہ، سوچ اور جدوجہد کرائے پر ہی تو دستیاب ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم متحد ہوکر اپنے مسائل کی جنگ نہ لڑ رہے ہوتے۔

ہمارے ملک میں محبین وطن بھی کرائے پر دستیاب ہیں جن کا ظہور مخصوص ایام میں مخصوص نعروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کرائے کے مجاہدین جنہیں جب اور جہاں چاہا استعمال کر لیا اور جب چاہا اپنی منشا پر سائیڈ لگا دیا۔ کرائے کے طالبان جنہیں اچھے اور برے کی تقسیم میں بانٹ کر اپنی من مانی کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا۔

کرائے کے سیاسی لیڈر جنہیں کبھی بلوچستان کے غریبوں میں آٹے کا تھیلہ دینے بھیج دیا گیا تو کبھی بوٹ کے تسمے باندھتے دیکھا گیا۔ کرائے کے سیاسی کارکنان جو کبھی ایک پارٹی و لیڈر کے نعرے لگاتے ہیں تو کبھی دوسری پارٹی و لیڈر کے نعرے لگاتے ہیں۔ کرائے کے صحافی و دانشور جن کی صحافت و دانش مخصوص سرحد تک جاتی ہے۔ اگر سرحدیں پار کرنا پڑجائیں تو وہ جاوید چوہدری بن جاتے ہیں جو پروٹوکول میں بلوچستان یونیورسٹی میں وارد ہوتے ہیں اور اگلے دن اپنے کالم میں وہی کچھ لکھتے ہیں جو چائے کے کپ پر اسے سمجھایا اور بتایا جاتا ہے۔

سب کچھ تو کرائے پر دستیاب ہے پھر انسان کا ذاتی نظریہ، ذاتی سوچ، خالص جذبہ، عوام کا حقیقی درد، سچا مومن وغیرہ بننے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ سب تب کرنا پڑتا ہے جب آپ کو کچھ میسر نہ ہو اگر مارکیٹ میں سستے داموں سب کچھ دستیاب ہے اور آپ تھوڑی رقم میں اپنا کام چلا سکتے ہیں تو پھر بقول شیخ رشید گھر میں بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔

وزیر اعظم سے لے کر ایک چپڑاسی تک کرائے پر دستیاب ہے، کرائے ججز و وکیل، کرائے کے میر و ٹھکری، سردار و نواب، وزیر و مشیر تھوک کے حساب سے ملتے ہیں۔ پھر آپ کسی ظالم کے خلاف کیسے آواز بلند کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے جسے آپ ظالم کہہ کر آواز بلند کر رہے ہوں وہ کرائے کا محب وطن ہو۔ کرائے کا وزیر و مشیر ہو، کرائے کا مومن ہو، کرائے کا صحافی و دانشور ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو منہ کی کھانی پڑ سکتی ہے آپ لاکھ بھی ظالم ظالم کرتے رہیں مگر آپ کا ساتھ دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔

یہاں ظالم اور ظلم کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ جسے آپ ظالم و ظلم کہہ رہے ہوتے ہیں وہی ظالم و ظلم کسی کی نظر میں عین حب الوطنی ہو، ایمانیات کا اعلی درجہ ہو، جہاد کا فریضہ ہو۔ ظلم و ظالم کی تعریف بھی اپنی اپنی ہے اس لئے یہاں کچھ اپنا نہیں، کچھ خالص نہیں ایسے معاشرے میں جینے کے دو ہی راز ہیں یا تو آواز اٹھاتے رہیں اور اپنے مخالفین میں اضافہ کرتے جائیں یا پھر کرائے پر کوئی خدمت پیش کرنے کے لئے مارکیٹ میں خود کو پیش کردیں اور ہر آسائش کا مزہ لوٹیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments