حامد میر کھیلن کو مانگیں ونسٹن چرچل


تین جون کو محترم حامد میر صاحب نے اپنے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کو ہٹلر سے تشبیہ دی۔ مودی صاحب کو ہٹلر بنانا تو شاید اتنا مشکل نہ تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ اس ”ہٹلر ثانی“ کا علاج کیا ہے؟ جب آنجہانی ہٹلر کے تریاق کی بات ہو تو ذہن میں ایک شخصیت کا نام آتا ہے اور وہ ونسٹن چرچل کی شخصیت ہے۔ چنانچہ حامد میر صاحب نے بآواز بلند صدا بلند کی کہ

” اس اڈولف ہٹلر کو نکیل ڈالنے کے لئے ایک ونسٹن چرچل کی ضرورت ہے؟ وہ ونسٹن چرچل کہاں ہے؟ یہ پوچھیں گے وقفے کے بعد معید یوسف صاحب سے“ میرا خیال تھا کہ وقفہ ختم ہوگا تو معید یوسف صاحب جیب سے چرچل نکال کر میز پر رکھ دیں گے کہ یہ لو پکڑو اپنا چرچل۔ لیکن وہ سیانے آدمی تھے انہوں نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا۔

یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس وقت ہمیں چرچل کی ضرورت ہے یا کوئی اور نسخہ آزمانا ہو گا۔ لیکن بیشتر اس کے کہ ہم اپنی گلیوں میں اس پوشیدہ چرچل کو ڈھونڈنے نکلیں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ”ونسٹن چرچل“ کون تھے؟ اور وہ ونسٹن چرچل کس طرح بنے تھے؟ جب ونسٹن چرچل کا نام آئے تو ہمارے ذہنوں میں وکٹری کا نشان بنائے سگار پیتے ہوئے ایک انگریز بوڑھے کی تصویر ابھر آتی ہے جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کا وزیر اعظم بنا اور پانچ برسوں بعد فتح نے قدم چومے اور یہ شخص ہیرو بن گیا۔

ان کی شخصیت کا احاطہ تو ایک کتاب میں بھی نہیں کیا جا سکتا کجا کہ ایک کالم میں کیا جائے۔ لیکن ہم ان کی جوانی کی صرف چند جھلکیاں بیان کر کے کچھ سبق تو حاصل کر سکتے ہیں۔

ونسٹن چرچل ایک با اثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد کابینہ کے رکن رہے تھے۔ جب ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا تو اس وقت ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ونسٹن چرچل کا تعلیمی ریکارڈ کوئی شاندار نہیں تھا۔ لاطینی، فرانسیسی اور ریاضی سے بے رغبتی نے انہیں نام نہاد ہوشیار طالب علموں میں شامل نہیں ہونے دیا۔

دو ناکامیوں کے بعد جیسے تیسے فوج میں منتخب ہو کر تربیت کے لئے سینڈہرسٹ کی ملٹری اکیڈمی میں پہنچ گئے۔ اس اکیڈمی میں بھی وہ روزانہ کی ڈرل میں ذرا پیچھے رہ جانے والے کیڈٹوں میں شامل ہوتے تھے لیکن ابھی وہ سترہ اٹھارہ سال کے تھے کہ انہوں نے جنگوں کی تاریخ اور ان کی تیکنیک کے بارے میں اپنی ایک ذاتی لائبریری بنا کر اس کا گہرا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ اور یہ چیز انہیں نمایاں کر رہی تھی۔

جب انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا تو انہوں نے اپنے خاندانی تعلقات استعمال کرا کے سفارشیں کرانا شروع کیں۔ کیا ترقی کے لئے؟ نہیں۔ کیا پلاٹ یا سبسڈی حاصل کرنے کے لئے؟ نہیں۔ اس وقت کہیں پر جنگ کی امید نہیں نظر آ رہی تھی جس میں وہ شریک ہو سکیں۔ کوئی اور ہوتا تو کہتا چلو جان چھوٹی لیکن چرچل جیسی شخصیت کے لئے یہ بات پریشانی کا باعث تھی۔ اس وقت کیوبا میں سپین اور کیوبا کے لوگوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ 1894 میں چرچل اپنی چھٹیوں میں سفارشیں کرا کے کیوبا پہنچ گئے تا کہ دیکھ سکیں کہ جنگ ہوتی کیا ہے؟ اور کیوبا پہنچ کر انہوں نے نے سپین کی فوج کے ساتھ کیوبا کے جنگلات میں مارچ شروع کیا۔ کئی دن جنگلوں میں پیدل مارچ کر کے انہیں بار بار مد مقابل فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ دیکھنے اور اس میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ چرچل نے اپنی چھٹیاں اس طرح منائیں۔ اس وقت چرچل کی عمر صرف اکیس سال تھی۔

پھر چرچل کو ہندوستان بھجوا دیا گیا۔ یہاں انہیں علم کی محبت نے جکڑ لیا۔ وہ افلاطون سے لے کر ڈارون اور گبن تک کی کتب کا مطالعہ کرتے رہے۔ شام کو کئی گھنٹے تاریخ، فلسفہ اور اقتصادیات کی کتابوں میں سر کھپاتے۔ علم سے ان کا یہ رومانس آخر تک جاری رہا۔ وہ ایک با اثر فوج افسر سر بائنڈن بلڈ سے ملے۔ یہ صاحب مالاکنڈ کے علاقے میں فوجی مہموں کی قیادت کر چکے تھے۔ چرچل نے موقع دیکھ کر ان سے دوستی بڑھانی شروع کی اور پھر ان سے ایک وعدہ لے لیا۔

اور وہ وعدہ کیا تھا؟ وہ وعدہ کسی ترقی یا مراعات کے لئے نہیں تھا۔ وہ وعدہ یہ تھا کہ اگر آپ دوبارہ سرحد ی علاقے میں جنگی مہم پر گئے تو مجھے ساتھ لے کر جائیں گے۔ 1897 میں چرچل انگلستان میں چھٹیوں پر تھے کہ انہوں نے اخبار میں خبر پڑھی کہ سرحدی علاقوں میں پٹھانوں نے بغاوت کر دی ہے۔ اور تین برگیڈ فوج سر بائنڈن بلڈ کی قیادت میں ان سے مقابلہ کے لئے جا رہی ہے۔ چرچل نے انہیں تار دے کر ان کا وعدہ یاد دلایا اور جواب کا انتظار کیے بغیر چھٹیاں ترک کر کے ہندوستان روانہ ہو گئے۔

اس کے ساتھ انہیں اخبار پائینر اور ڈیلی ٹیلی گراف کی طرف سے اس جنگ پر ان کے نمائندے کی حیثیت سے کام بھی مل گیا۔ وہ اس معرکے میں آخر تک شامل ہوئے اور انہوں نے اس جنگ پر ایک کتاب
The Story of Malakand Field Force
بھی لکھی جو کہ لانگ مین نے شائع کی۔ اس وقت چرچل کی عمر تئیس سال تھی۔ اس کے ساتھ چرچل کا تصنیف کے ساتھ عشق کا آغاز ہوا۔

ابھی وہ اس جنگ سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ سوڈان میں جنگ اپنے فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو گئی۔ یہاں برطانیہ کی فوجیں مہدی سوڈانی کے خلیفہ کی فوجوں سے بر سر پیکار تھیں۔ اب چرچل نے ایک بار پھر کوششوں اور سفارشوں کا سلسلہ شروع کیا کہ مجھے سوڈان کی جنگ میں شریک ہونے دیا جائے۔ لیکن اب حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ یہ لیفٹننٹ چرچل کون ہوتا ہے جو ہر جنگ میں پہنچ کر تبصرے لکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس مہم کے کمانڈر کچنر نے صاف انکار کر دیا کہ وہ چرچل کو اپنی فوج میں شامل نہیں کریں گے۔ لیکن انہی دنوں میں ان کے والد کے سیاسی حریف، وزیر اعظم لارڈ سالسبری نے ان کی کتاب پڑھی اور متاثر ہو کر ان کو ملاقات کے لئے بلایا۔

کچھ سوچ کر چرچل نے وزیر اعظم سے سفارش کرائی کہ انہیں سوڈان کے میدان جنگ میں بھجوا یا جائے۔ پہلے انکار کے بعد آخر وار آفس کی مداخلت پر انہیں اس شرط پر میدان جنگ بھجوایا گیا کہ میاں اپنے خرچ پر میدان جنگ میں جاؤ اور اگر تم وہاں مارے گئے یا زخمی ہوئے تو حکومت برطانیہ کسی قسم کا خرچہ نہیں اٹھائے گی۔ اور چرچل نے مارننگ پوسٹ سے جنگ کے بارے میں پندرہ پاؤنڈ فی کالم کی فیس طے کی اور سوڈان روانہ ہو گئے اور اومبڈرمین کی جنگ میں شامل ہوئے۔ اس جنگ کے اختتام پر انہوں نے اس پر ایک کتاب ”ریور وار“ لکھی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس سال تھی۔

ایک ناول سمیت ان کی تین کتب اپنا لوہا منوا چکی تھیں۔ اور وہ تین بر اعظموں میں جنگوں میں شریک ہو چکے تھے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس پر انہوں نے آرمی چھوڑ کر کالم نگاری تصنیف اور سیاست میں اپنے طویل سفر کا آغاز کیا۔ یقینی طور پر یہ سفر فوج میں ملازمت سے بہت زیادہ اہم، محنت طلب اور کٹھن تھا۔

اگر پاکستان نے اپنا چرچل ڈھونڈنا ہے تو ضرور ڈھونڈیں۔ لیکن جس شخص نے بڑھاپے میں چرچل بن کر اپنے وطن اور شکست کے درمیان کھڑے ہونا ہو اس کی جوانی اس طرح گزرتی ہے۔ اگر ایسا شخص ملتا ہے تو کیا کہنے ورنہ اس قومی بیماری کو قحط الرجال کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments