کورونا کی کنفیوژن


آج کل جتنا زبان زد عام لفظ کورونا ہے، شاید کوئی اور لفظ نہیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اس کا دائرہ اثر صرف ایک زبان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی زبانوں میں اسی کا طوطی بول رہا ہے۔ اپنے مفہوم کی طرح یہ لفظ ان دنوں تاجور بھی ہے اور طاقتور بھی! اس کی برتری کے خاتمے کے خواہش مند ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، مگر محض بے بسی کی صحیح تصویر بنے۔ یہ بے بس افراد وہ نہیں جنہیں عوام الناس کہا جاتا ہے، ان میں ہر نوع کے ماہرین، محققین اور منتظمین، اس سوال کے آگے لاجواب دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کورونا، وہ ہاتھی بن چکا ہے جو نابیناؤں کی اپنی اپنی تشریح سے ماپا اور ناپا جا رہا ہے۔ اس پے بھلا ہو، سوشل میڈیا کا جو قانون کی طرح اندھا ہے اور کسی بھی رائے، خیال یا تبصرے کو اندھا دھن پھیلانے کی قدرت رکھتا ہے سو وہ یہ کام اس تیزی سے جاری رکھے ہوا ہے کہ ہر طرف کنفیوژن ہی کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے اور مجھے اندیشہ ہے ( بلکہ یقین سا ہے ) کہ یہ تحریر بھی اس کنفیوژن میں اضافے کا سبب نہ ہو اور ایسا، اس لیے دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شے واضح نہ ہو تو سوائے کنفیوژن کے، اور کیا سامنے آ سکتا ہے۔

ہاں اس کنفیوژن کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لوگ اس بارے میں بہر طور، اپنی ایک کنفیوزڈ رائے رکھنے پے بضد ہیں اور اسے اپنے نقطہ نظر کے سانچے میں ڈھال کر، حالات کو ویسا ہی سمجھنا، دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں جو بظاہر ان کی ذاتی تسلی کا باعث ہو، خواہ وہ باطنی طور پر خود اس کے حوالے سے شاکی ہوں ( اور در حقیقت وہ ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہیں )

کنفیوژن کے حق میں کم از کم ایک دلیل تو بنتی ہے کہ ایسی نادیدہ وبا کا سامنا، یقیناً اکثریت کو پہلی بار ہوا ہے سو قیاس آرائی منطقی بھی ہے اور کسی حد تک مجبوری بھی۔ عموماً اکثریت ( اور بھاری اکثریت) خود کو اس اعتراف کے لئے رضامند نہیں کر پاتی کہ انھیں ”کنفیوز“ کے زمرے میں شامل کیا جائے، اس لئے ایسے میں اسے کسی چھتری کا سایہ درکار ہوتا ہے۔ یوں کنفیوژن، الجھن کو جنم دیتی ہے اور الجھن، فکری مغالطوں کو! یہی معاملہ کورونا کے حوالے سے موجود ہے، ہر چند کہ یہ وبا اب اتنی کم عمر بھی نہیں، مگر کنفیوژن کی تازگی اور جوبن، جوں کے توں موجود ہے۔ اس میں اضافہ تو ہوا ہو گا، کمی ہر گز واقع نہیں ہوئی۔

کنفیوژن کی بلند سطح پر یہاں، دو گروہ نمایاں نظر آتے ہیں، ایک وہ جو تا حال یہ ماننے پہ آمادہ ہی نہیں کہ کورونا نام کی کوئی چیز اس وقت موجود ہے۔ یہ سب انہیں ذہنی فتور اور نرا پروپیگنڈا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے خیال میں، درحقیقت وہ سب کچھ، جو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسا ہے نہیں۔ وہ اسے محض نظر بندی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور اپنی اس کنفیوژن کے لئے، ان کا اعتقاد اس قدر مستحکم ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو جلد یا بہ دیر عریاں ہوتا دیکھنے میں، غیر متزلزل یقین کی منزل پے فائز نظر آتے ہیں۔

دوسرا گروہ، وہ ہے جو اس کنفیوژن کا شکار ہے کہ یہ سراسر سازش ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سازش کے تانے بانے ملانے میں بھی، وہ خود کنفیوژن سے دو چار نظر آتا ہے۔ کبھی اسے سازش کا سرا، ادھر دکھائی دیتا ہے اور کبھی ادھر! اپنی متضاد آرا کی وجہ سے وہ سازش کے مقاصد کے تعین میں بھی کنفیوز ہے۔ جسے ایک دفعہ مجرم قرار دیتا ہے، اگلی بار وہ اسے معصوم دکھائی دیتا ہے۔ اس الٹ پھیر کے کھیل میں، مجرم اور معصوم تسلسل سے بدلتے رہتے ہیں۔

سازش کا ہدف طے کرنے میں بھی کنفیوژن اپنی انتہا کو ہے۔ یہ کیسی سازش اور کیسا ہدف کہ سب لپیٹ میں ہیں، پھر تو اس صورت میں یہ بھی ماننا ہو گا کہ اگر یہ سازش ہے تو سازشی خودکش ہے، مگر یہ ماننے میں انھیں اس لئے تامل ہے کہ اس سے سازشی اتنا سازشی نظر نہیں آتا، جتنا مقصود ہے۔

کنفیوژن درحقیقت نام ہی اس صورت حال کا ہے جب، فہم، فراست کا اور عقل، دانائی کا ساتھ چھوڑ دے۔ مگر اصرار اس امر پے ہو کہ میری رائے اور میرا نقطہ نظر ہر قسم کے ابہام سے بالا ہے اور اسے ہی حقیقت کا پر تو سمجھا جائے۔

یوں نہ صورت حال کا صحیح ادراک ممکن ہے اور نہ مستقبل کے لئے بہتر حکمت عملی کا انتخاب!

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے کھلے دل سے تسلیم کیا جائے کہ تاریخ کا یہ موڑ یقیناً غیر واضح اور کنفیوز کر دینے والا ہے اور فی الحال کسی حتمی رائے سے پہلے، اس سے پیدا ہونے والی بھول بھلیوں سے نکلنے کے امکانات اور اسباب ڈھونڈے جائیں۔
یہ کل بھی طے کیا جا سکتا ہے کہ کورونا کا وجود کس شکل میں تھا اور کس کے تخلیقی/تخریبی ذہن نے اسے ممکن بنایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments