میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو!


آج کل ہر کوئی رائج الوقت فرسودہ نظام اور اس دور کے ظالم سامراج کے خلاف کچھ نہ کچھ کہہ کر دل کا بھڑاس نکالتا ہے۔ ظلم اور نا انصافی کی اس فضا میں سانس لیتے ہوئے آج میرے بھی دل نے چاہا کہ کچھ اپنے خیالات آپ کے حسین نظروں تک پہنچا دو۔ حالات حاضرہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے آغا شورش کاشمیری کی ایک شعر کا مصرع زبان پہ آتا ہے ؛۔ میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو۔

زیر بحث موضوع میں سب سے پہلے میں سیاست اور اس کی مفہوم اور اہمیت کی طرف آوں گا۔ کہ سیاست کیا ہے؟ دین اسلام میں سیاست کی کیا اہمیت رہی ہیں؟ اور سیاست ہی کے ذریعے قومیں کس طرح زوال سے نکل کر ترقی کی طرف آئی ہیں؟

حدیث نبوی کا مفہوم ہے، انبیا اپنی اپنی قوموں کی سیاست کیا کرتے تھے، بنی اسرائیل کی سیاست ان کی انبیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی دنیا سے تشریف لے جاتے تو دوسرا نبی اس کی جگہ لینے کے لئے تشریف لے آتا۔ حضور اکرم نے فرمایا میرے بعد نبوت کا دروازہ تو بند ہے لیکن میرے بعد میرے جانشین خلیفہ ہوں گے جو اس سیاسی عمل کو جاری رکھیں گے جو انبیا اپنے اپنے معاشروں میں کیا کرتے تھے۔ ( صحیح بخاری)

حدیث نبوی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست ایک پاکیزہ اور مقدس عمل ہے۔ دین اسلام میں روز اول سے اس کی بہت بڑی اہمیت رہی ہے۔ سیاست انسانی معاشرے کا وہ ترقی کن پہلو ہے، جس کی بنیاد پر قومیں اپنی اجتماعی شناخت ظاہر کرتی ہے۔ اور اپنے قومی و بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے ایک منظم سسٹم اور طریقہ کار دریافت کرتی ہے۔

لیکن بد قسمتی سے آج اس مقدس عمل کو نام ان نہاد سیاسی دانشوروں نے بدنام کیا ہوا ہے جو اپنے آپ کو لیڈر سمجھتے ہیں، جو حقیقت میں لیڈرز نہیں ہیں۔ لیڈر میں تو لیڈروں کے خصوصیات ہوتے ہیں۔ لیڈر جائیدادیں اور فیکٹریاں نہیں بناتے۔ لیڈر لوٹ کھسوٹ کرکے قوم اور ملک کو غربت و افلاس اور قرضے وراثت میں نہیں دیتے، بلکہ وہ تو قومیں اور معاشرے بناتے ہیں۔ لیڈر سچا ہوتا ہے، وہ دھوکہ نہیں دیتے۔ لیڈر کے ساتھ عوام کی فکر ہوتی ہے، وہ عوام کا خادم ہوتا ہے۔

عوام کے حقوق اور ضروریات سے باخبر رہتا ہے۔ لیڈر امین اور صادق ہوتا ہے، وہ بہادر، ایماندار اور شجاع ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ لیڈر کا کام اپنی قوم کو زوال سے نکال کر عروج کی منزل تک پہنچانا ہے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی قوم کی حقیقی لیڈر شپ قوم کے افراد میں عزم و حوصلے کے ساتھ ان کے دل دماغ کی کیفیات اور محسوسات کو بھی بدل دیتی ہیں۔ جس سے ان کی فکر و عمل کی ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے۔

دنیا کے جتنے بھی اقوام نے زوال سے نکل کر ترقی کی ہیں۔ سب ان کی قیادت کی مرہون منت ہے۔ ان کی قیادت کی انتھک قربانیوں نے اپنی قوم کو اقوام عالم میں نہ صرف عزت و احترام کا مقام دلوایا، بلکہ وہ بین الاقوامی فورسز پر اپنی ایک مضبوط رائے کے بھی مالک ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست اور لیڈر شپ کو دیکھا جائے تو سیاست سراسر تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ قوم کے جذبات سے کھیلنے والے رہنما دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں۔ بچوں کے نام پر جائیدادیں اور اثاثے بناتے ہیں اور ملک سے باہر منتقل کرتے ہیں۔ ان کا سب کچھ باہر ہوتا ہیں لیکن صرف یہ خود حکومت کرنے کے لئے یہاں ہوتے ہیں۔ قوم کے ہر ایک فرد کو صرف ایک ووٹ کا حق ہوتا ہے، جبکہ یہ جھوٹے اور مکار نام نہاد سیاسی راہنما بیک وقت کئی حلقوں سے انتخابات لڑنے کا حق رکھتا ہے۔

حکومت، اپوزیشن، نام نہاد دینی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان سب مل کر یہ کاروبار سیاست کرتے ہیں۔ یہ جماعتیں قوم کو کوئی واضح پیغام دینے کی بجائے مسلسل کنفیوژن پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ تاکہ نان ایشوز کو ایشوز بنا کر مسائل کی ذمہ داری کسی اور کے کندھوں پر ڈالا جائے تا کہ نئے الیکشن میں ووٹ کی حقدار بن سکیں۔

ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ، وہ کسی نصب العین اور اپنی کارگردگی کی بجائے رد عمل کی سیاست کرتی رہی ہیں۔ اپنی دور اقتدار کی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے کر مستقبل کے لائحہ عمل کو بنیاد نہیں بناتے۔ ، بلکہ اپنے خلاف سازش کے بیانئے اور ماضی کی مخالف حکومتوں پر تنقید پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کے پیٹوں سے قومی خزانے سے چرائے گئے مال بر آمد کرنے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار ملنے کیے بعد باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔

جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ، پاکستان پر قابض استحصالی طبقے دراصل باہم ملے ہوئے ہیں۔ لیکن الیکشن کے قریب عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اپنے غنڈوں کو دوڑا دوڑا کر ووٹ لینے کے لئے بھگایا جاتا ہیں۔ اور جب الیکشن جیت جاتا ہے، تو عوام پر پہلے سے زیادہ ظلم شروع ہو جاتا ہے۔ غربت اور بے روزگاری کی شرح دن بہ دن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی سے عوام کی کمر توڑ کر مہنگائی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر شرم کی بات یہ ہے کہ، بھیک مانگنے پر خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی حکم پر تیل، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں کوئی جمہوریت کے نام پر تو کوئی عوام کی خدمت کے نعروں پر، کوئی روٹی کپڑا مکان کے نام پر تو کوئی مرغیوں اور گھروں کا لالچ دے کر عوام کو ننگا اور بھوکا کیا جا رہا ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان پکوڑے بیچنے پر مجبور ہیں۔ روپے کی قیمت دن بہ دن تشویش ناک حد تک کم ہونے جا رہا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری شعوری سطح یہ ہے کہ، ان تمام ناکامیوں اور مظالم کو لے کر بھی یہ لوٹنے والے کرسی تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی پر مجھے شیخ رشید کا کہا گیا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ۔ ۔ سیاست عوام کے حافظے کی کمزوری پر زندہ رہتی ہیں۔

پیارے ہم وطنوں ؛ کب تک ہم اس اندھیروں میں ٹھوکریں کھائیں گے؟ کب تک ہم ان بے ضمیروں کے پیچھے پڑے رہیں گے؟ اور ہ کب تک ہمیں یہ شرمندگی کی زندگی گزارنی پڑے گی؟ خدا کے لئے ان لوگوں کا پیچھا اور چھوڑ دیں۔ اپنے اندر شعور پیدہ کرنے کی تحریک چلائیں۔ اپنے حالات خود تبدیل کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ اگر ہم اس ظلم ونا انصافی کے خلاف نہیں اٹھے تو دنیا و آخرت میں ذلیل اور رسواں ہوں گے۔ اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments