سمندرکا عالمی دن اس سال انٹرنیٹ پر منایا جائے گا


ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پر استعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75 فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔ سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کی اور انسان کی دوستی ابتدا سے ہے۔ اس قدر اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود صحت عامہ کے خطرات کے مسائل کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں سمندروں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں نہیں آتا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سمندروں کی صحت کا ہماری صحت سے گہرا تعلق ہے۔

آپ یہ جان کر حیرت زدہ ہوں گے کہ ان موجودہ دنوں میں جبکہ دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے، اس وائرس کی تشخیص اور علاج کی نئی راہیں متعین کرنے میں سمندر بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سمندر کی گہرائیوں میں دریافت ہونے والی زندہ مخلوق، حیاتیات، کوویڈ۔ 19 وائرس کا تیزی سے پتہ لگانے کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔ سمندر انسان کو نت نئے تجربات اور انسانیت کی بھلائی کے لئے بہت سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں اسی لئے بہتر مستقبل کے لئے سمندروں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

سمندروں کا عالمی دن 1992 میں ریو ڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہر سال سمندر کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کم کرنا ہے۔ سمندر کے عالمی دن کے موقع پر عموماً دنیا بھر کے ساحلوں کی صفائی، تعلیمی پروگرام، تصاویر سازی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذا کے ایونٹس سجانے سمیت دیگر تقاریب منائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانوں میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے اوقیانوس گلوبل کی شراکت میں تیار کردہ ایک پروگرام میں، سمندروں کا عالمی دن انٹرنیٹ کے ذریعے منایا جائے گا۔ موجودہ سال کا تھیم ہے ”پائیدار سمندر کے لئے جدت“ اس تھیم کے مطابق سمندر ہمارا مستقبل ہیں جن کو بچانے کے لئے نئے طریقے، نئے راستے اختیار کرنا ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندر کو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے جبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔

اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔ پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر ٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیات انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments