ایک عمر رسیدہ کرونا سے ملاقات


میں ایک وائرولوجسٹ ہوں۔ وائرسز کے ساتھ کام کر کر کے میں ہر قسم کے وائرس کو ایسے پہچان لیتا ہوں جیسے قصائی بکرے کو دور سے دیکھ کر بتا دیتا ہے یہ دوندا ہے یا چوگا۔ یہ کل کی بات ہے، حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد میری بیوی نے بھی محلے کی باقی عورتوں کی طرح اچھرا بازار پر دوپہر کے تین بجے دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا۔ کرونا کے پھیلاؤ اور اس کی ہلاکت خیزی پر میرے تین روزہ لیکچر کا یہ اثر ہوا کے آج میں موٹر سائکل سٹینڈ پر ایک شریف مشرقی شوہر کی طرح، موٹر سائیکل کو ڈبل سٹینڈ پر لگا کر بیٹھا اس کے مشن امپاسبل سے کامیاب واپس آنے کی دعا کر رہا تھا۔ جبکہ وہ نیک بخت مع سارے بچوں کے، انسانوں کے اس سمندر میں ایک مشاق سکوبا ڈائیور کی طرح غوطہ لگا کر غائب ہو چکی تھی۔

میں انھی خیالوں میں گم تھا کہ میری نظر کرونا وائرس پر پڑی جو بازار میں گھسنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ قریب آدھا گھنٹہ بھرپور زور لگانے کے بعد وہ ایک بنچ پر بیٹھ کر ہانپنے لگا۔ نا جانے کیوں مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں ایک قریبی دکان سے پانی کی بوتل خرید کر اس کے قریب چلا گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکا اور حملہ کرنے کی پوزیشن لینے لگا، مگر بازار میں گھسنے کے لئے اتنا زور لگا چکا تھا کہ اس سے ہوائی فائر بھی ٹھیک طرح سے نا ہوا۔

میں نے پانی آفر کیا۔ وہ تھوڑا ہچکچایا۔ میں سمجھ گیا اور بولا، ”ٹینشن ناٹ، کھل کے پیو منرل واٹر ہے“ ۔ میری بات سن کر اس نے مجھے ایسا گھورا جیسے میں نے اس کے دونوں گردے مانگ لئے ہوں۔ نہایت طنزیہ انداز میں بولا، ”ابے سالے میں وائرس ہوں، تو مجھے منرل واٹر کی پہچان بتا رہا ہے۔ یہ پان والا صبح سویرے ساری بوتلیں سرکاری نلکے سے بھر کے لاتا ہے۔ میرا کزن ہیپاٹائٹس اسی محلے میں رہتا ہے۔ اس نے مجھے سب بتا دیا ہے“ ۔

میں کچھ شرمندہ ہو گیا۔ اپنی خجالت اور انسانیت پر وائرس کے اس لفظی حملے سے تھوڑا پریشان تو ہوا مگر گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ”بھائی سانس کچھ بحال ہوا یا اور پانی لاؤں؟“ ۔ اس نے مجھے پھر گھورا، پھر بے بسی کے عالم میں بولا، ”یار یہ لوگ کس مٹی سے بنے ہیں؟ میں صبح سے بازار کھلنے کے بعد ان پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، دوپہر ہو گئی ہے، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتاؤ یہاں پیر رکھنے کی بھی جگہ ہے؟“

میں نے موٹر سائکل سے اتر کر بازار پر ایک نظر ڈالی اور اس کی بات پر ایمان لے آیا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ وہ اب کے تقریباً روہانسا ہو کر بولا، ”ہمارے پورے کنبے کی اس بازار پر ڈیوٹی لگی ہے۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میرے نوجوان بیٹے زور لگا کر اندر گھس گئے ہیں اور ایک ہاتھ سے دوسرے اور ایک سامان سے دوسرے میں گھس کر اپنی تعداد خوب بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے اگر یہ رونقیں ایسے ہی لگی رہیں تو ہمارا ٹارگٹ وقت سے پہلے ہی پورا ہو جائے گا۔ مگر ان دیوانوں کا جنون دیکھ کر شک پڑتا ہے کہ حکومت نے چوری چھپے ویکسین بنا کر انھیں راشن کے تھیلوں کے ساتھ سپلائی کر دی ہے۔ چلو ماسک پہنے ہوئے لوگ تو پھر بھی ہماری کچھ عزت کر رہے ہیں، مگر یہ عورتیں نا جانے کس دھن میں بغیر کسی احتیاط کے تھان پر تھان کھلوائے جا رہی ہیں“ ۔

مجھے اچانک اپنے بیوی بچوں کا خیال آیا مگر اپنی اوقات کا سوچ کر میں پھر اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔ ”اٹلی سے لے کر امریکہ تک ہماری اتنی دہشت ہے کہ لوگ ہمارا نام سن کر ہی کانپ اٹھتے ہیں مگر اس ملک میں تو ہماری دو ٹکے کی بھی عزت نہیں۔ کوئی ڈرتا ہی نہیں۔ یار تھوڑی سی عزت تو ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ہزار بارہ سو بندہ تو ہم اب تک لے ہی بیٹھے ہیں مگر افسوس ہماری اس کارکردگی کو بھی لوگ حکومت کی سازش کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یار ہم سیریل کلر قبیلے سے ہیں، مانتے ہیں ہماری پرفارمنس یہاں اتنی اچھی نہیں جیسی ہمارے بھائیوں کی یورپ اور امریکہ میں ہے مگر ہمارا نہیں تو کچھ خدا کا خوف ہی کر لو۔ اس عید پر تو ہم نئی تیاری سے آئے ہیں اور روزانہ کی اموات کا گراف بھی اوپر جا رہا ہے، مگر مجال ہے تمہارے ہم وطنوں کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔ آدھے تو سمجھتے ہیں کے ہم ہیں ہی نہیں اور باقیوں کو یقین ہے کہ پہلے والے آدھے ہی سچے ہیں۔ حالانکہ روزانہ میرے پازیٹیو کیسز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے مگر ان لوگوں پر کوئی اثر ہی نہیں۔ یار عزت بڑی چیز ہے۔ مجھے اپنے قبیلے میں ’گبر سنگھ کرونا‘ کا ٹائٹل ملا ہے جانتے ہو کیوں، کیوں کہ ووہان سے پچاس پچاس کوس دور گاؤں میں جب کوئی بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ۔ اس کا گلا رندھ چکا تھا اور میں دل میں دھاڑیں مار مار کر ہنس رہا تھا۔

وہ تھوڑا سانس لینے کے لئے رکا اور میری طرف دیکھ کر روتے ہوئے بولا، ”یار تم تو مجھے اچھی طرح جانتے ہو میں کتنا خطرناک ہوں، مجھ سے نہیں ڈرنا نا ڈرو مگر کم از کم مجھے سیریس تو لو۔ ہمارے وائرستان میں ہمارا مذاق اڑ رہا ہے، ہم پر لطیفے بن رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ہماری میمز چل رہی ہیں کہ یہ لوگ ہمارا نام پورے کا پورا مٹی میں ڈبوئے دیے ہیں “ ۔ اس کے اندر کا گبر شاید پھر جاگا۔ ”آج میں تم سے پوچھ کر ہی رہوں گا یہ لوگ کون سی چکی کا آٹا کھائے ہیں رے۔ کیا یہ واقعی اتنے نڈر ہیں یا بے وقوف ہیں؟ “ ۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments