کیا ہم بھی ڈاکٹر کیری ہیں؟


اس شخص کا نام کیری (Kary) ہے اور یہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا رہنے والا ہے۔ اکثر اوقات مخصوص ادویات کے استعمال کے زیر اثر سرشاری کی کیفیات میں رہتا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر اس کے عجیب و غریب نظریات پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ مثال کے طور پر اس کا نظریہ یہ ہے کہ ایڈز کی وجہ ایچ ائی وی (HIV) وائرس نہیں ہے، اور اوزون کی تہہ میں کوئی سوراخ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں بشمول گلوبل وارمنگ حقیقت نہیں محض ایک ڈھونگ اور فریب ہیں جو لوگوں نے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے پھیلائے ہیں۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے مرحوم دادا جی اکثر اس کے پاس تشریف لاتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس نے کیلیفورنیا کے جنگلات میں ایک شب خلائی مخلوق سے ملاقات کی تھی جس کی شکل ریکون جانور سے مشابہ تھی۔ وہ کہتا ہے کہ اس مخلوق نے اسے گلے لگا کر دبایا بھی مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ وہ نہیں بتا پایا۔ کیری یہ بھی کہتا ہے کہ اس زمین پر ایک متوازی نظام ایسا بھی ہے جس میں وقت کا نظام الٹ سمت ہے اور اس میں انسان بغیر کسی مادی وسیلے (گاڑی جہاز وغیرہ) کے سفر کر سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیری کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو لوگ اس کے ان نظریات سے اتفاق نہیں کرتے وہ جاہل مطلق اور بے شعور ہیں۔

آج کی سائنس کی تھوڑی سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ نظریات نہ صرف غلط ہیں بلکہ سائنس کی کسی بھی مقررہ کسوٹی پر پورا نہیں اترتے۔ تو آپ کے خیال میں کیری کسی گلی محلے کے عام سازشی تھیوریاں پھیلانے والی کسی شخصیت کا نام ہے؟ جی نہیں۔

کیری کا پورا نام ڈاکٹر کیری ملس (Kary Mullis) ہے اور وہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ سائنس کی دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز حاصل کرنے والے عظیم سائنسدان ہیں اور اپنے مرتبے میں دنیا کے بہت بڑے سائنسدانوں مادام کیوری، آئن سٹائن، الیگزینڈر فلیمنگ، اور واٹسن اینڈ کرک کے ہم پلہ ہیں۔ انہوں نے پی سی آر (PCR) کا طریقہ متعارف کرایا جس پر انہیں نوبل پرائز اور جاپان پرائز سے بھی نوازا گیا۔ یہ اتنی عظیم پیشرفت تھی کہ اس دریافت کی بنا پر سائنسدانوں کے مطابق میڈیکل اور حیاتیات کی دنیا کو دو واضح ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ دنیا جو پی سی آر کی دریافت سے پہلے تھی اور دوسری پی سی آر کی دریافت کے بعد کی دنیا جو یکسر مختلف ہے۔

ان کی اس دریافت کے بعد میڈیکل کی دنیا میں انقلاب آ گیا۔ اسی کی بنیاد پر میڈیکل کی دنیا کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہیومن جینوم پروجیکٹ مکمل ہوا جس میں انسان کی جینیاتی شکل کو ڈی کوڈ کیا گیا۔ اسی کی بنیاد پر ہی ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے تباہ شدہ جہازوں اور ملبے میں سے مسخ شدہ لاشوں کی فرانزک سائنس سے پہچان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آج کورونا کی تشخیص کے لیے ہونے والے تمام ٹیسٹ پی سی آر کی مدد سے ہو رہے ہیں۔

اور کورونا وائرس پر تمام تحقیق اسی تکنیک کی متقاضی ہے۔ جینیٹکس (جینیات) کی دنیا میں ہونے والی تمام اعلیٰ تحقیقات جیسے کہ جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے وراثتی بیماریوں کا علاج اور کنٹرول (جین تھیراپی) کرنا، بیکٹریا کے ذریعہ انسولین، ویکسین اور دیگر حیاتیاتی مصنوعات بنانا اور آج سے لاکھوں سال پرانے جانداروں کے اجسام کا مطالعہ بھی ممکن ہوا ہے۔ یہاں تک کہ سائنسدان مصنوعی زندگی جیسا کہ ہزاروں برس قبل کے جانداروں کے ڈی این اے سے وہی جاندار دوبارہ بنانے کی کوشش میں ہیں جیسا کہ مشہور فلم جراسک پارک میں دکھایا گیا ہے۔

ڈاکٹر کیری نہ صرف اپنے درج بالا عجیب و غریب اور بے بنیاد نظریات پر قائم تھے بلکہ متعدد انٹرویوز اور اپنے آرٹیکلز میں وہ اپنے ان اعتقادات کا دفاع بھی کرتے رہے جس کی بنیاد پر ان کو سائنسی دنیا میں شدید تنقید کا بھی سامنا رہا۔ انہیں سنکی اور خبطی بھی کہا گیا۔ ان کی زندگی میں بھی ان کے ان غیر سائنسی نظریات کو کسی نے اہمیت نہیں دی۔

جب سے سے کورونا وائرس دنیا پر حملہ آور ہوا ہے انسانی ہلاکتوں، اذیتوں اور بدحالیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف انسانیت اپنی بقا کے لیے سسک رہی ہے اور لاکھوں انسان معاشی، حیاتیاتی اور نفسیاتی ابتلا کا شکار ہیں تو دوسری طرف تمام طرح کے معاشروں اور ملکوں میں تعلیم یافتہ افراد کی ایک ایسی فوج سامنے آئی ہے جو ہر طرح کے حقائق، ابتلاؤں اور انسانی ایذاؤں کو دیکھنے اور پرکھنے کے باوجود بھی حقیقت کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے اور طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گھڑنے میں مصروف ہے۔

ڈاکٹر کیری کی طرح کے اعتقادات رکھنے والوں میں مختلف ممالک کے وزرائے اعظم صدور اور حتیٰ کہ میڈیکل شعبے کے کئی ڈاکٹرز بھی شامل ہیں جو حقائق کے برعکس کرونا کو کسی نئے ورلڈ آرڈر کا حصہ سمجھتے ہیں جس کے تحت پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے انسانوں کو ایک حکومت کے ماتحت کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جسم میں ویکسین کے نام پر چپ لگائی جائے گی جس سے انسان کو مانیٹر اور تابع کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تھیوریوں میں ہسپتال جانے والے تمام مریضوں کو کرونا ڈکلیئر کرنا، خالی تابوتوں کی تدفین کرنا اور لاشیں امریکہ کو فروخت کرنا، ہر ایک موت کے بدلے ڈالر لینا اور انسانی اعضا کی فروخت کرنا شامل ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے پیروکاروں میں شامل ہو چکی ہے۔ اس وقت ہمارے دیہاتوں میں جو تھیوری سب سے زیادہ بک رہی ہے وہ زہر کا ٹیکا ہے جس کے مطابق ڈاکٹر ہسپتال آنے والے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کے کرونا سے موت ڈیکلیئر کر دیتے ہیں اور لاش امریکہ کو فروخت کر کے ڈالر کماتے ہیں۔

نفسیاتی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے یا دوسروں سے نصیحت پکڑنے کی صلاحیت نسبتاً کم ہوتی جاتی ہے اور وہ فکری مغالطوں کا شکار ہو کر اپنے خود ساختہ اعتقاد میں پختہ ہوتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے اسی اعتقاد کی بنیاد پر 15 فیصد مریض غلط تشخیص کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ شرح کسی بھی بیماری سے مرنے والوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان مغالطوں سے نیوٹن اور ڈاکٹر کیری جیسے بڑے اذہان بھی مبرا نہیں ہیں چہ جائیکہ ہم جیسے عام درجے کے انسان۔

کہا جاتا ہے کہ سچ جتنی دیر میں جوتا پہنتا ہے، جھوٹ اتنی دیر میں دنیا گھوم آتا ہے۔ یہ کہاوت آج کے اس کرونائی دور میں بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔ جس شدت اور تیزی سے سے کورونا پاکستان میں پھیل رہا ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ کورونا بارے حساسیت کم ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک ہلاکت خیز ماحول ہمارا منتظر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا پر پھیلی بھانت بھانت کی تھیوریاں ہیں۔

آئیں ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہم سب عقل، شعور، اور فہم و فراست رکھنے کے باوجود کورونا کے بارے میں کسی فکری مغالطے کا شکار ہیں؟ کیا ہم بھی ڈاکٹر کیری ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments