استاد محترم



کل تاریاں ہیٹھ کھڑو کے میں مضطرؔ! ادھی رات
جد کھڑکی کھولی وقت دی آئی صدیاں دی خشبو

محترم فرخی صاحب کی میرے اپنے خیال کے مطابق بے وقت لگتی وفات کی بدولت ماضی کی کھڑکی سے پرانی یادوں کے جھونکے در آنے لگے ہیں۔ اور ایک جھونکا ظاہری نگاہ سے بہت ہی معمولی سے واقعہ کی یادگار ہے لیکن خاکسار کی سوچ پر اس کا ایک مثبت اثر پڑا جس سے عمر بھر فیوض حاصل کیے جو ایک گڈرئیے کی 1956 میں کہی ہوئی بظاہر ایک معمولی سی بات ہے۔

پنجاب میں عام طور پر ناموں کا بگاڑ کر پکارنے کا رواج ہے خوش قسمتی سے میر ا نام ایسا تھا جسے بگاڑنے کی کوشش اس وجہ سے ناکام ہوئی کہ بگاڑنے سے وہ اصل نام سے بھی زیادہ وزنی ہوجاتا تھا کیونکہ بگاڑنے کا ایک سبب سہل پسندی بھی ہوتا ہے لہذا کولمبس کو کولمبسی یا کولمبسو کہہ کر پکارنے میں زیادہ مشقت کرنی پڑتی تھی اس لئے بچت ہو گئی۔ ہمارے ایک متقی بزرگ جن کا نام پیر محمد تھا۔ وہ عام طور پر پیرا کے نام سے پکارے جاتے تھے۔

ایک بار ضلع کے ایس پی صاحب ان کے کزن ہی آ گئے اور پھر وہ یک دم پیرا سے پیر محمد کہے جانے لگے۔ اور مخاطب کر تے وقت انہیں۔ پیر محمدا۔ پکارا جانے لگے۔ مرحوم بڑے راست گو تھے کہنے لگے۔ پہلے تو مجھے پیرو کہا جاتا تھا اور ذرا لحاظ کرتے ہوئے پیرا کہہ کر بھی پکار لیا کرتے تھے۔ اب میں بھائی صاحب کی آمد کی وجہ سے پیر محمد ہو گیا ہوں۔

ہمیں بچپن میں ایک سبق یہ بھی گھر سے ملا تھا کہ جس سے ایک لفظ بھی سیکھیں اس کا بطور استاد احترام واجب ہو جاتا ہے۔ اس پہلو سے اگرچہ دوسری جماعت کے سکول ٹیچر بھی میرے اساتذہ واجب الاحترام ہیں لیکن شعور کی ابتدائی منزل میں ایک استاد۔ جناب محترم دوسا صاحب۔ کا دل میں الگ احترام موجود ہے۔ جن کا اصل نام تو دوست محمد تھا اور جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے پنجابی کسل کی وجہ سے اور قدرے تحقیر کی وجہ سے ان کا نام دوست محمد کے بجائے دوسی اور دوسا کہہ لیتے تھے۔

تحقیر اس وجہ سے کہ وہ ایک پیشہ ور ذات سے تھے جنہیں پنجاب میں کمی کہا جاتا ہے اور پھر وہ ایک گڈرئیے تھے جو گاؤں سے مختلف گھروں سے مویشی اکٹھے کر کے باہر چراگاہ لے جاتے اور شام کو مالکان کے حوالے کرتے تھے۔ طبعیت کے بڑے دھیمے تھے اور ہمارا سکول جو گاؤں سے باہر تھا۔ وہاں نلکے سے پانی پینے کے لئے وہ قریبی چراگاہ سے سکول آ جایا کرتے تھے۔

ایک بار پانی پینے کے لئے آئے تو مجھ سے چند سال بڑے ایک سکولئے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی چھڑی کہیں گم گئی ہے۔ اس پر ان کے اظہار افسوس کو بھانپ کر مجھے خیال آیا کہ چھڑی گم ہونا بھی کوئی افسوس والی بات ہو سکتی ہے؟ وہ تو کسی درخت سے ٹہنی کاٹ کر نئی بنائی جا سکتی ہے۔ یہی بات ان کی خدمت میں بھی عرض کر دی۔ اس پر انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ۔ ”دیکھو میاں! ۔ آپ کے پاس کانے کا ایک قلم ہے۔ جس سے لکھتے ہو۔ اور کانے کے پودے یہاں بے شمار ہیں۔ ٹوٹ جائے تو دوسرا قلم بنا سکتے ہو۔ لیکن جو قلم اس وقت آپ کے پاس ہے آپ کے کام وہی آ سکتا ہے۔ جس طرح آپ کے لئے قلم بہت ضروری ہے اسی طرح میرے لئے چھڑی بہت ضروری ہے کیونکہ میرا کام جانوروں کو ہانکنا ہے اور یہ چھڑی کے ساتھ کیا جانے والا کام ہے“ ۔ دوست محمد صاحب سکول میں تو نہ پڑھ سکے لیکن میری سوچ پر ہمیشہ کے لئے ایک نیک اثر چھوڑ گئے۔ نوجوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن ان کی اس بات سے میرے ذہن میں متبادل غور وفکر کی جو کلی کھلی اس نے زندگی بھر ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی دیکھنے کی صلاحیت اجاگر کر دی۔

فرخی مرحوم بھی۔ ”ہم سب“ ۔ کی وساطت سے ہم سب کے واقف بنے اور عمر میں کافی چھوٹے ہونے کے باوجود ایک استاد کی مانند محترم ہوئے جن کی یاد کے سبب ہی سوچوں کا سلسلہ چلتے چلتے آغاز کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ ان سے بھی مغفرت کا سلوک کرے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments