زلفی بھائی نہیں رہے


سر ذوالفقار خان سے دل کا رشتہ تھا اور شاید اب یہ ہمیشہ رہے گا۔ 2011 میں پہلی مرتبہ ڈان نیوز میں اسائنمنٹ ڈیسک پر دیکھا تو حیرت ہوئی کہ انگریز اب تک باقی ہیں ملک میں۔ ان کی میز پر جرمنی کا جھنڈا دیکھ کر خیال کو تقویت ملی لیکن چند دن بعد کسی کو پنجابی میں عزت بخشتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔

دلچسپ بات یہ کہ انہیں اپنی خوبی کا بخوبی علم تھا اور بتایا کرتے کہ اکثر ائرپورٹ پر اپنی شکل و صورت کے سبب طویل قطاروں سے جان چھوٹ جاتی۔ ایک مرتبہ راولپنڈی کے کسی بازار میں دکاندار نے جملہ کسا کہ انہیں دیکھو کیسے اپنا ملک سمجھ کے گھومتے ہیں۔ زلفی نے پلٹ کر جواب دیا کہ اپنی طاقت کے دم پر گھومتے ہیں روک سکو تو روک لو۔ وہ بیچارہ انگریز کو اردو بولتا دیکھ کر گھبرا گیا اور غالباً ایجنٹ سمجھ کر چپ ہو لیا۔

زمانہ طالب علمی میں صحافت اور انٹرنشپ کے دوران زلفی بھائی کا مہربان سایہ ہمیشہ بڑے بھائی، ایک دوست اور بزرگ کی حیثیت سے سر پر قائم رہا۔ انٹرنشپ کے دوران یونیورسٹی سے چھٹی کا مسئلہ پیش آیا تو زلفی بھائی نے انتہائی محترم اور ہردلعزیز استاد گرامی محمد کاشف صاحب کو کال کی اور نہ صرف چھٹی ملی بلکہ اگلے چار ماہ اس کال کی وجہ سے ریلیکسیشن کا فائدہ اٹھایا۔

2013 میں ایک اخبار سے وابستگی کے دوران زلفی بھائی نے رابطہ کر کے ملنے کو کہا۔ میں نے اخبار کے دفتر ہی بلا لیا۔ آتے ہی کہنے لگے یار کوئی کام ڈھونڈو میرے لیے آج کل بیکار ہوں۔ اس دن لگا اب صحافت میں کچھ باقی نہیں رہا آج زلفی جیسا شخص مجھ جیسے 15 ہزار کی تنخواہ والے رپورٹر سے مدد مانگ رہا ہے، نجانے ہمارا کیا حال ہوگا۔ زلفی کو کچھ عرصہ بعد اپنے سابقہ تجربے کی بدولت دوبارہ متحدہ عرب امارات میں کسی آئل کمپنی میں ملازمت ملی اور چلے گئے۔

30 مئی کو آخری مرتبہ بات ہوئی، پرانے قصے اور لطیفے دہرائے۔ کہتے تھے صحافت کر کے مزہ آیا لیکن یہ عربی ******* تیل میں پیسہ اتنا دیتے ہیں کہ صحافت یاد نہیں آتی۔ کہہ رہے تھے ہماری تو چھٹیاں ہی ہیں دو مہینوں سے اور صحت کا پوچھا تو کہا ابھی تک نوجوان ہیں۔ بروز ہفتہ اطلاع ملی کہ جمعہ کو آئل رگنگ کی سائٹ پر کام کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب موقع پر انتقال کر گئے۔ تین دن خود کو یہی یقین دلاتے گزرے گئے کہ زلفی نہیں گزر سکتے۔ اب بھی لگتا یے کہ جیسے زندہ انسان تھے، ویسے ہی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

زلفی کو نہیں جانا چاہیے تھا یا کم از کم ایسے لوگوں کو چاہیے کہ بتا کر جائیں۔ کاش سب کے جانے کا پہلے سے علم ہو پاتا تاکہ آخری وقت مل لیتے، بات کر لیتے افسوس نہ رہتا۔
اللہ ہمارے بھائی کے اہل خانہ کو صبر دے اور مرحوم کو غریق رحمت کرے اور آخرت کی منزلیں آسان فرمائے۔

مرحوم ذوالفقار خان ہم سب کے لیے مضامین لکھتے رہے ہیں جو اس لنک پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

https://www.humsub.com.pk/author/zulfiqar-khan/

ہومر بلوچ
Latest posts by ہومر بلوچ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments