کشمیر دوسرا فلسطین بننے جا رہا ہے


بھارتی حکومت نے گزشتہ برس 5 اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرتے ہوئے خطے کو دو اکائیوں جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرتے ہوئے انڈین وفاق میں مکمل طور پر ضم کر دیا۔ 5 اگست کے غیر آئینی، غیر اخلاقی اور استحصالی اقدامات کے بعد سے مودی سرکار مسلسل اس کوشش میں ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی اثر و رسوخ بڑھایا جائے اور کشمیری عوام کو نہ صرف ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کیا جائے بلکہ کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کا تناسب بھی ہندو آبادی سے تبدیل کیا جائے۔

تاکہ مستقبل میں ہونے کسی بھی متوقع رائے شماری میں ہندو آبادی کو فیصلہ کن اکثریت دلائی جا سکے۔ حالیہ کرونا وبا کے دنوں میں ایک طرف پوری دنیا کے پالیسی ساز ادارے اس سعی میں ہے کہ لوگوں کو اس جان لیوا وائرس سے بچایا جائے اور جلد از جلد اس وبا کے خلاف موثر ویکسین تیار کی جائے وہیں مودی سرکار پوری تن دہی سے اپنے فاشسٹ ایجنڈے کی تکمیل میں کوشاں ہے۔ اس سلسلے کی حالیہ کاوش اس وقت منظر عام پر آئی جب مودی سرکار نے ہندوتوا نظریے کی تکمیل کر طرف ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے کشمیر کے ڈومیسائل قوانین میں ترمیم کر کے کشمیریوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کے 70 لاکھ کشمیریوں کے مقابل ہندوستان کی سوا ارب آبادی کو لا کھڑا کیا ہے۔ نئے ڈومیسائل قوانین مودی سرکار کی استحصالی ذہنیت اور ہندو راشٹریہ ایجنڈے کی تکمیل کی طرف ترجیحی کوششوں کا واضح اشارہ ہیں۔

کشمیری شہریت کے نئے قوانین کے تحت بہت سے ہندوستانی شہری کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے اور نہ صرف سرکاری نوکریوں کے حصول میں کشمیریوں کے مد مقابل ہوں گے بلکہ کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد بھی خرید سکیں گے۔ گویا ان قوانین کی مدد سے کشمیر میں آبادیاتی تناسب کے رد و بدل کی عملی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی نقطہ آغاز ہے اس ایجنڈے کا جس کے تحت مسلم اکثریتی کشمیری علاقے کو ہندو اکثریتی علاقہ میں بدلا جانا مقصود ہے۔

حالیہ ڈومیسائل قوانین کے تحت کی جانے والی تبدیلیاں، اسرائیلی آبادکاری ماڈل سے مستعار لی گئی ہیں جن کے تحت فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مودی سرکار بھی اسرائیلی آبادکاری کی طرز پر مقبوضہ وادی میں آبادیاتی رد و بدل کے لئے کوشاں ہیں جو کہ جنیوا کنوینشن کے آرٹیکل 49 کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کے مطابق ”قابض طاقت اپنی آبادی کو زبردستی اپنے زیر قبضہ علاقہ میں داخل نہیں کرے گا۔ اور نہ مقبوضہ علاقے سے انفرادی یا بڑے پیمانے پر زیر تسلط آبادی کو زبردستی بے دخل اور ملک بدر کرے گا“ ۔

اسرائیلی وزارت داخلہ 1952 کے لا آف انٹری ”جس کے ذریعے اسرائیل نے قومیت کا قانون نافذ کیا اور 1925 کے فلسطین شہریت آرڈر کو منسوخ کر دیا“ کی من چاہی تشریح کرتے ہوئے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کر رہا ہے۔ اس قانون کے مطابق

1۔ اگر فلسطینی شہری ایک مخصوص عرصہ تک ملک سے باہر رہیں۔ تو ان کی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔
2۔ فلسطینی شہریوں کے لئے لازم ہے کہ ان کا ”سنٹر آف لائف“ یروشلم رہے۔ اور
3۔ اسرائیل کے ساتھ وفاداری۔

ان قوانین کی تشریح کا کوئی واضح ضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان تشریحات کو فلسطینی عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ان پر ارض فلسطین کو تنگ کر دیا گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ ڈومیسائل قوانین کے اہم نکات کے مطابق:۔

وہ شخص جو جموں و کشمیر میں پندرہ برس تک رہائش پذیر رہا ہو یا جس نے وہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو پا پھر دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات وہیں کے کسی ادارے سے دیے ہوں وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حقدار ہوگا۔ مزید براں سرکاری ملازم جس نے دس سال تک کشمیر میں سرکاری ڈیوٹی سرانجام دی ہو وہ اور اس کے بچے بھی ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کے اہل ہوں گے چاہے وہ ایک دن کے لئے بھی کشمیر میں رہائش پذیر نہ ہوئے ہوں۔ ایسا شخص سرکاری ملازمتوں کا اہل اور غیر منقولہ جائیداد کا مالک بھی بن سکتا ہے۔

یہ قوانین ایک طرف تو تمام ہندوستانیوں کو کشمیر میں رہائش کا حق دیتے ہیں۔ تو دوسری طرف کشمیریوں پر ڈومیسائل کی تصدیق کے لئے مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی شرط لازم کی گئی ہے۔ قبل ازیں مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ آئینی طور پر مستند دستاویز تسلیم کی جاتی تھی۔ لیکن نئے قواعد کے تحت اگر کوئی کشمیری شہری کسی وجہ سے نئے معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے رہائش اور روزگار کی تلاش میں کشمیر سے ہجرت کرنا ہو گی۔

نئے رہائشی قوانین مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر آبادیاتی تبدیلی کے مذموم بھارتی عزائم کا عکاس ہیں۔ مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر موجود ہے اور بین الاقوامی قوانین کے رو سے بھی کشمیر میں کیے جانے والے بھارتی اقدامات سراسر غیر قانونی ہیں۔ لہذا ایسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو عالمی سطح پر بھرپور سفارتی طاقت کے ساتھ اجاگر کر کے کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

کیونکہ موجودہ قوانین اس مذموم کوشش کا نقطہ آغاز ہیں جن کا اختتام کشمیری مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی زمین و جائیداد سے محروم کرنا اور ہندوستان کا حصہ بنانا ہے۔ مودی سرکار کی ان مذموم کوششوں کے خلاف موثر آواز اٹھائی جانی ضروری ہے اس سے پہلے کہ کشمیری اپنی ہی سرزمیں پر اجنبی بن جائیں اور ایک نیا فلسطین وجود میں آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments