وزیر اعظم ڈاکٹر اور جج منتظم ہیں: گھبرانا نہیں ہے


سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لوگ اس وائرس کی وجہ سے مررہے ہیں، انسانوں کی حفاظت کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اس جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں کورونا وائرس کا عروج دیکھنے میں آئے گا۔ اس دوران حکومت کے مقرر کردہ قواعد پر عمل کرنے اور ماسک پہننے سے ہی وائرس کے اثرات کو کم کیا جاسکے گا اور ہسپتالوں پر کم بوجھ پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے ججوں اور وزیر اعظم کے بیان سے البتہ یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ایک طرف عدالت عظمیٰ اس وبا کی نوعیت اور پھیلنے کے طریقہ کار کے علاوہ اس کی روک تھام کے لئے ماہرین کی رائے لیناضروری نہیں سمجھتی لیکن قیاس، اخباری رپورٹوں اور سوموٹو اختیار کے سائے میں وبا کے بارے میں احکامات دینے، تبصرے کرنے اور حکومت کو سخت سست کہنا ضروری سمجھتی ہے۔ آج کی کارروائی کے دوران بھی ایک طرف جج حضرات نے اپنے اس فیصلہ کو واپس لیا کہ دکانیں اور مارکیٹس ہفتہ اتوار کو بھی کھلی رکھی جائیں۔ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ کہنا تھا کہ کیا کورونا وائرس نے حکومت کو مطلع کیا ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو ہی حملہ کرے گا ، باقی دنوں میں لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اسی قسم کی دلیل دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھرپور کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے، لوگوں کو عید منانے کا پورا موقع دینے اور مارکیٹس کے علاوہ مالز کھولنے کا بھی حکم دیا تھا۔ آج کی سماعت میں ہفتہ اتوار کو بازار کھلے رکھنے کے بارے میں حکومت کو پابند کرنے کا حکم واپس لے لیا گیا ۔ شہریوں کی سماعت البتہ یہ جاننے سے قاصر رہی ہے کہ کیا کورونا نے معزز ججوں کو کوئی خصوصی پیغام بھجوایا ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو ہی حملہ کرے گا ۔ اس لئے احتیاط کرلی جائے؟

آج کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کوورنا کی روک تھام کے لئے قانون سازی کا مشورہ دیا ہے۔ ججوں کا خیال ہے کہ قانون سازی کے بغیر اس وبا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ جن ممالک میں پارلیمنٹس کام کرتی ہیں اور حکومتیں خود کو عوام کے منتخب نمائیندوں کے سامنے جواب دہ سمجھتی ہیں، وہاں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے مالی اقدامات کے لئے پارلیمان سے رجوع کرکے وسائل فراہم کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امریکہ میں بھی اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 کھرب ڈالر کے وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا لیکن یہ صدر کی تجویز تھی۔ اس مالی تجویز کو بعد میں ایک بل کی صورت میں کانگرس میں پیش کیا گیا جہاں اس کے خد و خال پر غور و خوض کے بعد سیاسی اتفاق رائے پیدا کرکے اس کی منظور ی دی گئی۔ بیشتر یورپی ملکوں میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔

دنیا کورونا وبا کے حملہ کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس لئےمنظور شدہ قومی بجٹ وبا سے پیدا ہونے والے حالات میں اضافی اخراجات کا احاطہ نہیں کرسکتے تھے ۔ ان میں شعبہ صحت کی صورت حال اور عام شہریوں کی مالی معاونت کا معاملہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ بیشتر ملکوں کو اپنی صنعتوں اور تجارتی اداروں کو بھی مالی سہارا دینا پڑا ۔ لیکن یہ سارا کام پارلیمنٹ سے اجازت لینے کے بعد ہی ممکن ہوسکتا تھا۔ تاہم تمام جمہوری ملکوں میں اس معاملہ پر اپوزیشن جماعتوں کو ا عتماد میں لینے کا اہتمام بھی کیا گیا تاکہ قومی یک جہتی کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ حکومتوں نے اس عمل میں اپوزیشن کی تجاویز پر غور کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنا بھی ضروری سمجھا۔ تاکہ وبا کی شکل میں کسی بھی ملک یا معاشرے کو جس آفت کا سامنا تھا ، اس میں سب ہم آواز ہوں اور تمام سیاسی عناصر میں یہ احساس موجود ہو کہ وہ بھی اس بحران میں پوری قوم کے ساتھ مل کر قومی مالی ، طبی یا سماجی جد و جہد کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس دوران بعض حکومتوں نے عوامی اجتماعات کو کنٹرول کرنے یا سماجی فاصلہ قائم رکھنے کے اصول کو نافذ کرنے کے لئے بعض خصوصی اختیارات بھی قانون سازی کے ذریعے حاصل کئے تھے۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے اپنے اختیار کو کلی اور حتمی سمجھنے والے صدر نے بھی کسی صدارتی حکم کے ذریعے اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ حتمی فیصلہ کے لئے کانگرس سے رجوع کیا گیا۔

قانون سازی کے بارے میں سپریم کورٹ کے مشورہ میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ کورونا پالیسی کے کس حصے کو قانون کا پابند کرنے کی خواہش مند ہے۔ اب تو پورا ملک اس وبا کے شدید دباؤمیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کا یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت پریس کانفرنسیں کرنے اور بیان جاری کرنے سے وبا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ججوں کو یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا سو موٹو نوٹس لینے اور ان سرکاری اداروں کے نمائیندوں کو عدالت میں حاضر کرنے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے جنہیں عملی اقدامات کے لئے اس وقت فیلڈ میں ہونا چاہئے تھا۔ کیا ہر انتظامی معاملہ میں اعلیٰ عدالتوں کی مداخلت اور بال کی کھال اتارنے جیسے ’ریمارکس‘ سے کسی وبا یا آفت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ عدالت عظمی ٰ نے کورونا سے نمٹنے کے لئے ناکافی اقدامات پر ناراضی کا اظہار کیا اور ایک مرحلہ پر چیف جسٹس گلزار احمد کو جب بتایا گیا کہ ملک میں کورونا ٹیسٹ کرنے کے لئے ایک سو لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اتنی تعداد میں لیبارٹریز تو صرف کراچی میں ہونی چاہئیں۔ یا جب عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت ملک میں روزانہ30 ہزار ٹیسٹ کرنے کا اہتمام کررہی ہے تو ججوں کا کہنا تھا کہ 22 کروڑ کی آبادی میں یہ تعداد بہت کم ہے۔

معزز ججوں کی ان تمام باتوں سے اتفاق کرنے اور سرکاری حکمت عملی سے اختلاف کے باوجود یہ استفسار تو کیا جاسکتا ہے کہ کیا کسی ملک میں کوئی سہولت ’قانون سازی‘ اور عدالتی احکامات کے ذریعے فراہم ہوسکتی ہے یا اس کے لئے وسائل فراہم کرنا بھی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا ہے۔ حکومت جو بھی اقدامات کررہی ہے ، اسے ان کے لئے مالی وسائل کے علاوہ تکنیکی ڈھانچہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ کو متحرک کیا جاتا اور حکومت اور اپوزیشن مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرتے جو لوگوں کی تکلیف کو کم کرنے کا باعث ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج حکومت کی مجبوریوں اور مشکلات کا احاطہ کئے بغیر ایسے ریمارکس دینے میں مصروف ہیں جو عام سماعت کو بھلے لگیں۔ کیا معزز جج حضرات بھی اب انصاف دینے کے لئے رائے عامہ کو متاثر کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرنے پر ’مجبور‘ ہوچکے ہیں۔ کورونا پر سو موٹو کے دوران معزز جج دیگر معاملات کو بھی بیچ میں کھینچ لانا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسے آج کی سماعت میں ٹڈی دل کے خطرہ پر بھی بات کی گئی اور رپورٹ طلب کر لی گئی۔ عدالتوں کی کارروائی اور ججوں کی باتوں کو کسی مقبولیت پسند لیڈر کی گفتگو سے مختلف ہونا چاہئے۔ کوئی مسئلہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو عدالت کو اپنے وقار، حدود اور مقام و مرتبہ کے مطابق ہی رائے دینی چاہئے۔

کورونا پر عدالتی کارروائی کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی پالیسی کو درست ثابت کرنے اور کورونا کے پھیلاؤ کا کی ذمہ داری عوام پر عائد کرنے کے لئے قوم سے خطاب کیا۔ ایک طرف انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگلے دو ماہ تک کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی غربت، مفلسی، بے روزگاری اور معیشت کی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے خلاف اپنا نادر روزگار تھیسس دوبارہ پیش کیا۔ حکومت لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ کورونا وائرس کو بے لگام ہونے کا پورا موقع فراہم ہوچکا ہے۔ پاکستانی عوام اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ جو لوگ ہسپتالوں میں داخل ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگ اپنے گھروں میں اس وائرس کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو وینٹی لیٹر ملنا معجزے سے کم نہیں ہے۔ ملک میں کبھی صحت کے شعبہ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو نہ صرف حفاظتی ساز و سامان مناسب طور سے میسر نہیں ہے بلکہ بیمار ہوجانے والے کئی ڈاکٹروں کو مناسب علاج یا وینٹی لیٹر تک کی سہولت تک دستیاب نہیں ہوتی۔ پاکستان کے نظام صحت اور سیاسی مزاج میں اس سے مختلف صورت حال کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

دنیا بھر کی حکومتوں اور لیڈروں نے وبا کی صورت میں سیاسی ذمہ داری قبول کی اور طبی پہلو پر رائے دینے کے لئے اپنے ملکوں کے بہترین ڈاکٹروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی کورونا وائر س نمٹنے کے لئے جو ٹاسک فورس بنائی تھی اس میں بہترین ڈاکٹر شامل تھے جو پریس کانفرنس کے دوران صدر کی معاونت کے لئے موجود رہتے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کی طرح سپریم کورٹ کے جج بھی کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے طبی ماہرین کا مشورہ لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ عمران خان خود کو کسی ماہر ترین ڈاکٹر سے زیادہ قابل اور باخبر سمجھتے ہیں۔ اور عدالت عظمی کے جج قانون کے علاوہ مالی معاملات اور انتظامی امور پر مکمل دسترس کے گمان میں مبتلا ہیں۔

عوام جمع خاطر رکھیں اور بے فکر ہو جائیں۔ جس ملک کا وزیر اعظم سپر ڈاکٹر اور جج بہترین منتظم اور مالیات کے ماہر ہوں، انہیں خود کو یہی کہنا چاہئے: ’ہم نے گھبرانا نہیں ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments