حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا مزار مبارک شہید ہوا یا نہیں؟ شام سے عینی شہادت


مارچ میں اس محاذ پر جنگ میں تیزی آ گئی اور چند ہفتے قبل شام کی سرکاری فوج اپنے روسی اور ایرانی حلیفوں کے ہمراہ اسے باغیوں سے واگزار کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ بالا مزار کی بے حرمتی کی خبر اور اس کی مبینہ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جن میں اس حرکت کا کھلم کھلا الزام شامی حکومت کی حلیف ایرانی ملیشیا پر لگایا گیا۔ میرے سوشل میڈیا کے حلقہ احباب میں دنیا کے بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شامل ہیں لیکن یہ مشاہدہ حیرت انگیز لگا کہ جس تسلسل اور دشنامی عنوانات کے ساتھ یہ بات پاکستان میں پھیلائی جا رہی تھی، دیگر مسلم ممالک میں اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حتی کہ اس ملک میں بھی، جس کے سرکاری خبر رساں ادارے نے یہ بات پھیلائی اور اسی کا حوالہ دے کر دو اور ممالک کے سرکاری و نیم سرکاری میڈیا نے بھی اسے شایع کیا۔ شام اور ایران کی جانب سے بھی اس خبر کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی جس پر اضطراب مزید بڑھا۔

میری شام میں موجودگی کی وجہ سے احباب اور اہل خانہ نے مجھ سے اس معاملے کی چھان بین کے لیے کہا لیکن شام کی سمت سے ادلب تک اب بھی امدادی کارکنان، خصوصاً غیر ملکیوں کی رسائی نہیں ہے چونکہ جنگ اب بھی جاری ہے اور علاقے میں بارودی سرنگوں کی موجودگی کا بھی واضح خطرہ ہے۔

بہت تگ و دو کے بعد کسی دوست کے توسط سے ایک حلبی بندے سے رابطہ کرنے میں کامیابی ہوئی جو اتفاق سے سنی ہے اور اس دستے کا حصہ تھا جو سب سے پہلے معرۃ النعمان میں داخل ہوا۔ خبر واحد تھی اور اس سے رازداری کا وعدہ کیا تھا لہذا اسے اس وقت سوشل میڈیا پر نہیں لگایا۔

اس کے مطابق یہ جگہ مذہبی شدت پسند باغی گروہ ”ہیئۃ التحریر الشام“ کے قبضے میں تھی اور وہ اسے دفتر کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ اسے وہاں فرنیچر اور مقامی آبادی سے جمع کیے گئے ”حفاظتی ٹیکس“ کے ریکارڈ کے جلے ہوئے کاغذات ملے۔ مزار کی عمارت اور قبر کے تعویذ کو جنگ میں نقصان پہنچا تھا۔ چند ماہ قبل ہونے والی آتش زدگی بھی وہاں قابض گروہ کے ذخیرہ کیے گئے گولہ بارود میں آگ لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ قبر کھودنے کا البتہ کوئی نشان نہ تھا۔

سچ پوچھیں تو راوی سے عدم واقفیت اور اپنی عربی دانی پر ناکافی اعتماد کے سبب دل کو پورا اطمینان نہ ہوا۔ بالآخر، دو روز قبل، ہمارا ایک ہم کار جان اور ملازمت جوکھم میں ڈال کر واگزاری کے بعد موقع پر پہنچنے والے محکمہ آثار قدیمہ کے اولین افسران کے ہمراہ وہاں جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے زبانی اور تصویری شہادت بہم پہنچائی تو دل کو اطمینان ہوا۔

سالوں کی عدم نگہداشت، قابضین کے اسے دفتر، باورچی خانے، سٹور اور قیام گاہ کے طور پر استعمال کرنے، چند ماہ قبل بیرونی احاطے میں گولہ بارود پھٹنے اور تازہ جنگ میں گولیاں چلنے کے سبب عمارت کی دیواروں، محرابوں، کھڑکیوں اور چھت کے گنبد کو نقصان پہنچا ہے۔ دیگر اموی اور عباسی خلفاء کی پختہ، تعویذ دار قبروں کے برعکس، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ان کی زوجہ محترمہ کی قبریں، ان کی وصیت کے مطابق اوپر سے کچی چھوڑ دی گئی تھیں۔ قبر کے مقام کی نشان دہی اور اوپر کی مٹی کے انبار کو سہارا دینے کے لیے پستہ قد سنگی احاطہ سا البتہ بنایا گیا تھا۔ اس سنگی دیوار کی اوپری سطح پر چند دراڑیں تھیں، لیکن وہ بھی امتداد زمانہ کی وجہ سے پڑی دکھائی دیتی تھیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے کھدائی، منتقمانہ بے حرمتی یا نوادرات کی چوری کی کوشش کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔

ایک جملہ معترضہ آخر میں عرض ہے۔ یہ خادم مقبول عام سازشی نظریات یا کانسپی ریسی تھیوری کو مضحکہ خیز بات سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود، اگر ایک دم اس مشکوک خبر کا پاکستانی سوشل میڈیا پر پھیل جانا اور طول طویل نثری نوحوں اور تبرے کا ایک نامختتم سلسلہ اس قدر موثر انداز میں شروع ہونا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور روشن فکر احباب تک کا اسے آگے بڑھانا، اسی ہفتے وطن عزیز کوئٹہ میں ایک لین دین کے جھگڑے میں ایک شخص کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کے الم ناک واقعے کا اچانک فرقہ ورانہ منافرت میں بدل جانا اگر اتفاقات ہیں تو عجب سوئے اتفاق اور قرآن النحسین ہے۔ امید ہے کہ اہل وطن خبروں کی تحقیق کی زحمت کے ذرا خوگر ہو جائیں تو چنگاری پھینکنے والوں کو بھس کی فراہمی میں کچھ کمی آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments