شوہر کا تھپڑ


کیا کوئی مرد عورت پرہاتھ اٹھا سکتاہے، جواب یقیناً نہیں میں ہوگا۔ بس یہی اعتراض تھا اس عورت کا کہ اس کے شوہر کو اس پرہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا، تھپڑ نہیں مارناچاہیے تھا، وہ تھپڑ نہیں مار سکتا۔ بس اتنا سا کیس تھا، ایک خاتون وکیل کے سامنے بیٹھی عورت کا۔ گھر سے جانے پر شوہرکی جانب سے لیگل نوٹس ملا تو وکیل نے نوٹس پڑھتے ہوئے اسے قانونی زبان آسان زبان میں بتائی۔ لیکن جواب تھا وہ گھرجانا نہیں چاہتی۔ کیوں؟ من نہیں ہے۔

لیکن من کی بات عدالت مانے گی نہیں، ڈرایا گیا۔ صرف ایک تھپڑ تو بالکل بھی وجہ نہیں مانی جائے گی۔ اصل کہانی کیا ہے؟ گھریلو مسئلہ؟ شوہرکا گھر سے باہر افیئر؟ آپ کا کوئی افیئر؟ کوئی جنسی تعلق؟ سب کا ایک ہی جواب تھا۔ ۔ ۔ نہیں۔ وکیل نے مزید کہا کہ یہ بات لوگوں کو بے وجہ لگ سکتی ہے، جواب آیا کہ یہ عجیب نہیں کہ شوہر نے اسے تھپڑ مارا؟ میں اپنی عزت نہیں کر پا رہی ہوں۔ ہاؤس وائف ہوں، کسی نے زبردستی نہیں کی تھی، کوئی شکایت نہیں، خوش تھی۔ شوہرکے خوابوں اور اس کی زندگی کے ساتھ۔ ۔ ۔ لیکن میری اس کوشش کو اس نے یہ سمجھ لیا کہ وہ مجھے مار سکتا ہے۔ تھپڑ ہی سہی۔ تو ایسا بالکل بھی نہیں۔ عورت نے دکھ بھرے انداز میں جواب دیا۔ سوا ل ہوا کیا چاہتی ہو؟ جواب آیا، خوش رہنا چاہتی ہوں، جب بولوں خوش ہوں تو جھوٹ نہ لگے۔ یہ کہانی ہے، بھارتی فلم تھپڑ کی۔

جب بولوں کہ خوش ہوں تو جھوٹ نہ لگے، یہ وہ تلخ جملہ یا حقیقت ہے، جوہمارے معاشرے میں کم و بیش اکثر گھروں میں خواتین کو جھیلنی پڑتی ہے۔ اکثر خواتین جھوٹ کے سہارے ساری زندگی گزاردیتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں شاید تھپڑ کی نوبت تو کم ہو، یہ میرا مشاہدہ ہے، لیکن خواہشوں کا دم گھٹنا، چٹکلوں کے ذریعے عورت اور خاص طورپربیوی کا مذاق بنانا تو عا م سی بیمار ذہنیت ہے، جس کا احساس اچھوں اچھو ں کو نہیں رہتا۔ اپنے سے پہلے باپ، بھائی، شوہر کے بارے میں سوچنا، ان کی بات کا مان رکھنا، وغیرہ۔

یہ وہ ساری باتیں ہیں جس کا سبق شروع سے ہی بچی، پھرلڑکی، پھرعورت کو سکھایاجاتا ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت ہی عورت کی مخالف سمت میں کھڑی نظر آتی ہے۔ کبھی بھائی ہے، کہہ کر ماں اچھی چیز بیٹے کو دے دیتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ تھک ہارکے بھائی آیا ہے، جاؤ جاکر پانی پلادو، تو کبھی آنے جانے کے لئے دہرے اصول اپنائے جاتے ہیں۔ کچھ معاملات میں کہیں حفاظت کا پہلو موجود تو ہوتا ہے، لیکن درحقیقت خواہشات کے دم گھوٹنے کی یہ شروعات ہوتی ہے۔

پھریہ وہ معمول کی باتیں بن جاتی ہیں، جس کا احساس لڑکی سے عورت بننے تک تقریباًمرہی جاتا ہے ۔ شادی شدہ زندگی میں ہر وقت رشتے جوڑے رکھنے کا سبق تومیکے آمد پر ضرور دیاجاتا ہے اور اگر خدانخواستہ داماد جی بگڑ جائیں اور عورت واپس میکے آنا چاہے یا علیحدگی کا سوچے تو یہ سوچ پوری طرح سے کچلنے میں پورا گھرانا جٹ جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں تو ویسے بھی شادی کے بعد بہنوں کو بھائیوں سے زیادہ امیدیں نہیں رہتیں، کیونکہ بھابھی برامان جائیں گے۔

بیچارا باپ چاہتے ہوئے بھی طلاق یافتہ بیٹی کابوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ طلاق یافتہ بیٹی کو دلاسا دینے والا باپ، بیٹی کے سامنے یہ تو کہہ دیتاہے کہ پریشان نہ ہو، میں ہوں ناں! لیکن حقیقت میں وہ خود بھی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ بات صرف بیٹی کی حدتک نہیں ہوتی، اکثر بیٹیوں کی مائیں بھی پوری زندگی اس بھرم اور خود فریبی میں گزار دیتی ہیں وہ خوش ہیں، لیکن بڑھاپے میں شوہر سے شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ آپ نے مجھے یہ نہیں کرنے دیا، بچوں کی ذمہ داریوں نے اپنی زندگی جینے کا موقع ہی نہیں ملا۔

کہاجاتا ہے کہ عورت کو سمجھنا مشکل کام ہے اوربیوی کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ترین۔ لیکن اس مشکل کو سمجھنے کے لئے دونوں ہی مرد اور عورت کو کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ دونوں کا ہی اپنی اپنی حدود کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ دونوں کو یہ معلوم ہونا زیادہ ضروری ہوتاہے کہ اس کے ہمسفر کو اصل میں کس بات سے زیادہ خوشی ملتی ہے۔ کیونکہ اس کی خوشی سے ہی آپ کی خوشی جوڑی ہوتی ہے۔ کبھی دل رکھا جاتا ہے اورکبھی دل دیاجاتا ہے ۔

گھریلو معاملات میں مرد کی دلچسپی اور کاموں میں ہاتھ بٹانے کا فن عورت کو نکھاردیتا ہے۔ اکثر مرد اپنی پریشانیاں عورتوں سے شیئر کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ انہیں لگتاہے کہ وہ سب کر لیں گے، لیکن حقیقت میں اکیلے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ مرد اگر کماکے لاتاہے اور عورت لائے ہوئے پیسوں کو ایمانداری، ذمہ داری اور چادر میں رہتے ہوئے خرچ کرنے کا ڈھنگ جانتی ہو تو اکثر معاملات حل ہو جاتے ہیں۔ مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عورتوں کے دلوں میں جھانکے اور عورت، مرد کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ بعض جگہ تومیاں بیوی کے خاص تعلق میں عورت کی مرضی ہی شامل نہیں ہوتی ہے، لیکن وہ پھر بھی نبھارہی ہوتی ہے، ایسی خواتین اکثر گھٹن کاشکار رہتی ہیں۔

عورت کو مرد کے ساتھ رشتے میں عزت کے ساتھ احساس رکھنے والے دل چاہیے ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ جو سوچے یا کرنا چاہے تو مرد اس کے جائز کام میں اس کا ساتھ ہے۔ اس حساس کے ساتھ ایک عقل مند عورت اپنی پوری زندگی گزارسکتی ہے۔ میاں بیوی کے رشتہ ایسا رشتہ ہوتا ہے، جس میں ہر گزرتے د ن کے ساتھ پہلے دن کا احساس، کا احساس، رشتے کو خوش گوار بنا سکتا ہے۔ اپنی عورتوں کا ساتھ اور ان کی عزت، ان کو مزید نکھار دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments