کہانی کس کو لکھتی ہے


انیس سو اڑتالیس میں ژاں پال سارتر کی ایک کتاب شایع ہوئی۔ ادب کیا ہے۔ سارتر نے دلائل کے ذریعے اپنے موقف کا اظہارکیا تھا۔ سارتر کے مطابق عصری ادب کو جمالیات اورلفظوں کی قلابازی سے بچنا ہوگا۔ عصری ادب نئے سماجی نظام اورنئی سیاسی صورتحال سے گریز کرہی نہیں سکتا۔ سارتر نے صاف طور پر کہا۔ ۔ ۔ ایک مصنف کے طو رپر ہمارا کام اپنے عہد کی نمائندگی کرنا ہے۔ اوراپنے ہونے کی گواہی دینا بھی ہے۔ سارتر نے یہ بھی کہاکہPoetry میں ہم زبان کے ساتھ کھلواڑ تو کر سکتے ہیں، تجربے بھی کر سکتے ہیں مگر فکشن کے لیے یہ تجربے خطرناک ہوں گے۔ سارتر کی نظر میں لکھنے والے کاکام ہتھیارکو ہتھیار کہنا ہے، یعنی جیسا کہ وہ ہتھیار ہے۔ اگر لفظ، مرض میں مبتلاہیں تو پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس مرض (لفظ) کا علاج کریں۔ شاید اس لیے سارتر نے جدید ادب کو ایک اورنام دیا۔ لفظوں کا کینسر۔

ہم کیوں لکھتے ہیں؟ کیا لکھنا ایک میکانیاتی عمل کا حصہ ہے۔ کیا لکھنے سے کبھی ہمارے سماج یا معاشرے میں کوئی تبدیلی بھی آتی ہے۔ ترقی پسند جن تبدیلیوں کی باتیں کرتے ہوئے سامنے آئے تھے، کیا ان تبدیلیوں نے کسی حد تک سماج اور معاشرے کا چہرہ بدلنے میں کوئی کردار ادا کیا تھا؟ یا جدیدیت کو تسلیم کریں تو لکھنا محض ادب کی حد تک ہے اور اس سے کسی قسم کی تبدیلی کی امید ہی فضول ہے۔ نئی کہانی کیا ہے؟ کیا وقت کے ساتھ ادب کا منظرنامہ بھی تبدیل ہوتا ہے؟ صارفیت نے کس حد تک ہماری زندگی کو متاثر کیا ہے؟

نئی کہانی کے منظرنامہ پر غور کرتے ہیں تو ہزاروں سوال ہیں جو سانپ کی طرح کنڈلی مارکر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج زندگی کی ریس میں بھاگتے ہوئے عام آدمی کو ادب کی ضرورت نہیں ہے۔ نئی تکنالوجی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس نے اپنی زندگی سے ہی ادب کو خارج کر دیا ہے۔ سوال یہاں سے بھی پیدا ہوتے ہیں جب عام آدمی نے ادب کو مسترد کر دیا ہے تو کیا ہم محض خوش فہمیوں کا شکار ہیں؟ ادب برائے زندگی اورسماجی حقیقت پسند کے دعوے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔

ہم کیوں لکھتے ہیں؟ کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔ مارکیز سے لے کر مویان اور پایلو کو لہو تک اس کے جواب مختلف ہوں گے۔ ۔ ۔ اردو میں بھی اکثر ایسے سوالوں کے جواب تلاش کیے جاتے ہیں پھر بھی کیوں لکھتے ہیں، کی الجھن دور نہیں ہوتی۔ آغاز سے ہی اردو ادب کو تحریکوں کا ساتھ ملا اور ہر ادبی تحریک نے اچھے ادب کے لیے راستہ بھی ہموار کیا۔ رومانی تحریک سے لے کر ترقی پسند، جدیدیت اور مابعد جدیدت تک جہاں برے لکھنے والے سامنے آئے وہیں بہتر لکھنے والے بھی تھے، جن کی شناخت میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔

اس طرح کی تحریکوں کا سامنے آنا دراصل یہ باور کراتا ہے کہ ہر عہد میں ادبی تاریخ راہ نما کے فرائض بھی انجام دیتی ہے اور اس کے پس پردہ ایک زبان، اس کی روایت اور اس کے کلچر کو از سر نو تنقیدی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا چاہتی ہے۔ عرصہ پہلے ڈاکٹر محمد حسن نے اپنے رسالہ عصری ادب میں نورتن کے نام سے ادب کا جائزہ لیا تھا تو اس وقت جدیدیت کے فروغ کے باوجود ترقی پسند تحریک کا اثر زائل نہیں ہوا تھا۔ پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر محمد حسن دونوں اپنی اپنی سطح پر تحریک کو فروغ دے رہے تھے۔

اردو ادب تحریکوں سے باہر نکل کر ایک ایسی بھول بھلیاں کا شکار ہے جہاں راستہ گم ہے۔ تہذیبوں کا تصادم جاری۔ ایک مردہ زبان کو زندہ رکھنے کی کوششیں اور ہندستانی لکھاڑیوں کا حال یہ، کہ مشکل سے کبھی کبھی سال دو سال پانچ سال میں کوئی ایک کہانی سامنے آجاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں کی ایک بڑی قطار سامنے آ گئی تھی۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے بھی لکھنے والوں کو متاثر کیا۔ تحریکیں کہیں نہ کہیں ادیب کو خواب سے جگانے کا کام کرتی ہیں اور تحریکوں کے سست یا کمزور ہوتے ہی ادب بھی حاشیہ پر چلا جاتا ہے تو کیا سن دو ہزار بیس تک آتے آتے اردو ادب حاشیہ پر چلا گیا ہے؟

اردو ادب کی صحیح صورتحال کا جائزہ لیجیے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان دنوں ادب بے سمت ہے اور لکھنے والے خاموش۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ گفتگو ہندستانی منظرنامہ کو لے کر ہو رہی ہے۔ پاکستان کا منظرنامہ اٹھالیے تو اقبال خورشید، سے لے کر طاہرہ اقبال تک، اپنی مضبوط شناخت کے ساتھ سامنے آئے ہیں جن کے بغیر نئے افسانے پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔ انور سین رائے کی کہانی کا یہ اقتباس دیکھیے۔

”اسی شام جب مسخرہ کرتب دکھا کر لوگوں کو ہنسارہا تھا ایک بلی چھولداری میں گھس آئی، طوطے نے بہت شور مچایا اور پوری آواز سے مسخرے کو پکارا، لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں اتنی اونچی تھیں کہ کسی کو کوئی آواز سنائی نہیں دے سکتی تھی لیکن پھر بھی مسخرے کو طوطے کی آواز سنائی دی لیکن اس نے اس پر توجہ نہیں دی اور سوچا کہ ضرور یہ اس کا وہم ہے یا اس کی بیوی، گدھے اور ریڈیو کی کوئی نئی کارستانی۔ وہ فریاد کرتی آواز کو جھٹک کر لوگوں کو ہنسانے پر لگارہا۔ بلی نے ایک ایسی چھلانگ لگائی کہ طوطے کے نیچے جھولے کی رسی ڈھیلی پڑ گئی اور وہ نیچے زمین پر آرہا۔ اب بلی اس کے سامنے تھی۔ آوازیں اس کے حلق سے نکلنا بند ہوچکی تھیں، اس کا جسم ایسے بے حرکت ہوگیا تھا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو، اس نے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں۔

سرکس کے ایک مسخرے کا اختتام (انور سن رائے )

anwersen roy

مسخرہ، مسخرے کی بیوی، طوطا اور گدھے کو لے کر بنے گئے اس قصے میں آج کی اردو کہانی کی گونج سنی جاسکتی ہے۔ پرانے لوگ ایک ایک کرکے ہمارے درمیان سے اٹھنے لگے ہیں۔ قصہ گو خاموش ہے۔ تحریکیں بے اثر اور لکھنے والے دوچند۔ پڑھنے والے اور بھی کم۔ تخلیقی کائنات کے سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑے نام کنارے ہولیے۔ کچھ باقی ہیں۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بھی تازہ دم لیکن آپ بہتر جانتے ہیں کہ خموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی جمود کی کیفیت کے بعد جو ادب سامنے آتا ہے، وہ نئی تعبیروں اور نئی فکر کے ساتھ اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ نہ صرف اس میں زندگی کے نئے فلسفے شامل ہو جاتے ہیں بلکہ ایک عہد کے آئینہ کو بھی اس تخلیقی کائنات میں بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

نئی کہانی کے پس منظر میں تیزگامی کے ساتھ سائنس اور کلچر نے بھی اپنی جگہ محفوظ کرلی ہے۔ اس نئے صارفی سماج کی اپنی تہذیب، اپنا منظرنامہ ہے۔ زندگی بہت حد تک بدل چکی ہے۔ نوجوانوں کی فکرمیں سب سے زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ عہد کی ان تبدیلیوں نے فلم اور سماج دونوں کو متاثر کیا ہے۔ ہندستانی فلموں کا رخ کریں تو درخت کی چھاؤں میں گانا گانے والے ہیرو ہیروئن کا دور رخصت ہوچکا ہے۔ ملٹی پلیکس سنیما نے غور وفکر کرنے والی فلموں کا آغاز کر دیا ہے۔

سماج سے سیاست اور نئی دنیا کا چہرہ بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے اس کا اثر اردو ادب پر بھی پڑنا تھا۔ ہم ایک ایسے کنفیوژن یا Re۔ mix کلچر کا حصہ بن رہے ہیں جہاں مارخیز، بورخیس سے لے کر مویان تک کو بیانیہ سے الگ داستانوں، اساطیر اور Folk کہانیوں میں پناہ تلاش کرنی پڑتی ہے۔ سپاٹ بیانیہ کا دور رخصت ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ فیوژن یا اس ری مکس تہذیب میں کچھ بھی سپاٹ نہیں ہے۔ نتیجتاً کہانیاں اندھیرے، نا امیدی، خدا کی شناخت اور زندگی کے نئے فلسفوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔

رحمن عباس کی طویل کہانی خدا کے سائے میں آنکھ مچولی دیکھیے تو یہاں خدا حیران کرنے والے لوگوں کے درمیان سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا ہے۔ انور سین رائے کی کہانی دیکھیں تو خدا کی ذات مسخرے کی دنیا میں نئے سرے سے اپنی شناخت کررہی ہے۔ نئی صدی کے بیس برسوں میں نئی کہانی کا نہ صرف مزاج بدلا ہے بلکہ نئی کہانی میں ہیئت، اسلوب اورزبان وبیان کی سطح پر بھی کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔

کہانی اپنے نئے منظرنامہ میں اتنی بھیانک کیسے ہوگئی تو اس کا سیدھا اورآسان سا جواب ہے، کیونکہ دنیا بھیانک ہوچکی ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے زمانہ پہلے ہرمن ہیسے نے کہا تھا۔ پرانی دنیا کا زوال نزدیک آ چکا ہے۔ ایک نئی دنیا جنم لینے والی ہے۔ بھیانک تباہی کا اندیشہ ہے۔ سیاست کے شعلوں نے بہت حد تک تہذیب وتمدن اور سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔ ڈپریشن اور اس سے ملے جلے امراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اور حاصل یہ تھا کہ بہت سے دکھوں نے اوران کے اثرات نے انسان کو اکیلا اور بے دست وپا بنادیا تھا۔ دیکھا جائے تو کہانیوں نے دکھ کی اسی زمین سے موضوعات تلاش کیے تھے۔

”اے لمحوں کے بخت تخلیق کرنے والے خدا!
آنے والے لمحوں کو گزر چکے لمحوں سے مختلف کر۔
انہیں ڈرون حملوں اور خودکش دھماکوں کے عذابوں سے نجات دے۔

بیس برسوں میں تخلیقی کائنات میں جو تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ ادب بہت حد تک سمٹ چکا ہے۔ لیکن یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ روزی روٹی سے رشتہ استوار نہ ہونے کے باوجود اردو ابھی بھی شان سے زندہ ہے۔ یہ ہر دور میں ہوتا ہے کہ ایک قلم خاموش ہوتا ہے اور دوسرا اسے تھامنے کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔ کبھی کبھی گہری خاموشی اور وقت کی یلغار کو سمجھنے میں کئی برس گزر جاتے ہیں۔ آج یہی ہوررہا ہے۔ ادب حاشیے پر ضرور ہے لیکن ادب زندہ ہے۔

نئی کہانی پریم چند یا منٹو کی طرح سپاٹ بیانیہ کا شکار نہیں ہے۔ ایک طرف جدت اور حقیقت پسندی کے امتزاج سے نئے کولاژ تعمیر ہورہے ہیں اور دوسری طرف لاسمتی، گمشدگی، فرقہ پرستی، دہشت گردی اور تیزی سے تبدیل ہوتی دنیائیں ہماری کہانیوں کا موضوع بن رہی ہیں۔ اوران کے درمیان ایک بڑی حقیقت قاری ہے، جس کی نظر وقت اور حالات پر ہے۔ جو بہت خاموشی سے کہانی کے اس بدلتے منظرنامے کو دیکھ رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments