ایک نمبر کے دو نمبر


کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سے وہ بدن
ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لئے

ایسا زمانہ آ چکا ہے کہ ہر چیز الٹی چل رہی ہے۔ انگریزی اصطلاح میں ٹاپسی ٹروی کہا جاتا ہے۔ اس سیارہ زمین پر کسی جگہ بھی چلے جائیں کسی بھی ملک کا نام لیں کسی بھی قوم کی بات کریں وہی الٹی سیدھی یہنی منافقت میں ڈوبی ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت کا دھارا الٹا بہنے لگا ہے۔ تاریخ بھی الٹی چل رہی ہے۔ ہر طرف دکھاوا اور ہے حقیقت اور ہے۔ دنیا کے اندر زندگی گزارنا ایسا بن چکا ہے کہ جیسے ہم منافقت آباد میں آباد ہیں اور منفی پر عمل کر کے خود کو مثبت ثابت کر رہے ہیں۔ صرف گنگا ہی الٹی نہیں سندھ بھی الٹا ہے نیل بھی الٹا ہے اور ٹیمز بھی الٹا ہے اور سب دریا ہی الٹے بہاؤ میں ببہ رہے ہیں۔ انسانیت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی الٹی جانب گزر چکا ہے انسان کے اندرون ہی کی کایا کلپ ہو چکی ہے۔

ذاتیات میں جانے کی بجائے آئیے عالمی نظام کی بات کریں۔ سب سے پہلے ہمیں جمہوریت کی بات کرنا پڑتی ہے کہ تا حال اسے ہی سسب سے اچھا نظام حکومت مانا اور جانا جا رہا ہے۔ مگر اس جمہوریت میں بھی ایسے عمدگی سے غیر جمہوری عوامل داخل کیے ہیں کہ اب وہ غیر جمہوری ہی جمہوری نظر آتے ہیں اور جہاں جہاں جمہوریت ہے انہیں کو رائج کیا جا چکا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت تماشا بن چکی ہے اور اس کی اصل کاچہرہ بگڑ چکا ہے۔ آمریت اور دھونس دھاندلی اس جمہوریت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

فاشزم کہا جائے تو وہ موجودہ زمانے کی جمہوریت کے لئے بہترین لفظ ہو گا۔ ہم اپنے ملک کی مثال نہیں دیتے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ بہادر کس طرح سیاہ فام امریکیوں کو حقوق سے نواز رہا ہے اور وہاں پر کتنی آزادی اور لبرٹی ہے۔ تھنک ٹینک اس ملک کو چلا رہے ہیں اور عام آدمی کو حکومتی مرضی کے مطابق ہی سانس لینے کی جگہ دستیاب ہے۔ اگر کوئی زیادہ جگہ گھیرنا چاہے تو اس کو کاٹ کر چھوٹا کر دیا جاتا ہے۔

پھر بزعم خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والا ملک بھارت جو بھارت کم اور بہا رت (خون بہانے والا) زیادہ نطر آتا ہے۔ اس کے چاروں کونوں میں سے جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اور جمہوری اقدار کی ارتھیاں شعلوں کی نذر ہو رہی ہیں۔ بھارت نے نہ صرف کشمیر پر بلکہ اور بھی کئی ریاستوں اور علاقوں پر بدمعاشانہ جمہوریت قائم کر رکھی ہے۔ اپنے ہی قانون کی دفعہ نمبر 370 کو ختم کر کے اس نے غیر قانونی کام کیا ہے اور پھر بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے!

اس کے بعد جو بھی نظام ہیں دنیا انہیں آمریت کے نام سے ہی پہچانتی اور مانتی ہے۔ وہ روسی کمیونزم ہو یا چینی سوشل ازم سب ہی ان نظاموں کو مغرب کے پروپیگنڈا کی بدولت ظالمانہ نظام ہی تصور کرتے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مغربی جمہوریت اور کمیونزم اور سوشل ازم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کسی بھی نظام میں عام آدمی کو اپنی مرضی سے جینے کا صرف اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا سرکاری طور پر دیا گیا ہے۔

پھر مغربی جمہوریتوں اور مغربی طاقتوں کا ایک اور المیہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لئے جمہوریت کا نام استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ نے دنیا کے کس حصے میں فوجی حکومت کا ساتھ نہیں دیا اور اس سے معاہدے نہیں کیے ؟ اگر اتنا ہی جمہوریت کا پاس تھا اور ہے تو ہر آمرانہ طرز حکومت کی نفی کی جائے مگر ایسا ہرگز نہیں۔ جمہوریت کا نام بس ایک ضرورت اور پالیسی کے تحت لیا اور استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد معیشت کو دیکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر دنیا کے معاشی نظام بھی انہی دو سیاسی نظاموں کے تحت چلتے ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے اور دوسرا کمیونزم یا شراکتی نطام۔ دونوں نظام ہی صرف حکومتی مفاد کا دفاع کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ دونوں نظام معیشت ہی دنیا میں فسادات اور حکومتوں کی اتھل پتھل کا سبب ہیں۔ مغرب کو یہ پسند نہیں کہ دنیا کے ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اثر سے آزاد ہوں اور اپنی مرضی کی پالیسیاں بنائیں۔

جو ممالک ان مغربی اداروں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں وہ اگر ہاتھ پاؤں ماریں کہ اس سے آزاد ہوں تو ان پر ایسا کچھ کیا جاتا ہے کہ وہ باقی ممالک کے لئے عبرت بن جاتے ہیں۔ اور دو نمبر کیا ہے کہ یہ معاشی ادارے اپنے منشور اور مقاصد میں یہ لکھے ہوئے ہیں کہ دنیا کے ممالک کو بھوک افلاس سے بچانا اور ان کی مالی مدد کرنا تاکہ وہ اچھے انداز سے قائم رہ سکیں۔ وہاں کی عوام کا معیار زندگی بلند ہو۔ آپ سب کے سامنے ہو اس کے بالکل بر عکس رہا ہے۔ جہاں یہ عفریت پہنچتے ہیں وہاں کے ممالک ان کے قرضوں میں ایسے جکڑے جاتے ہیں کہ ان کی نسلیں بھی اچھے انداز سے زندگی تو کیا اپنی مرضی اور آزادی سے اپنی معاشی پالیسیاں بھی مرتب نہیں کر سکتیں۔

انسانی حقوق ایک اور دھوکا اور فریب ہے جو اس دنیا کے تھانے داروں نے غریب ممالک اور خاص کر وسائل رکھنے والے مسلمان ممالک کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ مشرق وسظی کے امیر ممالک اگر کبھی غلطی سے اپنے ملک کے مفاد کے لئے کوئی قدم اٹھا بیٹھیں تو فوری طور پر عالمی طاقتوں کو انسانی حقوق کی پامالی یاد آ جاتی ہے۔ جمہوریت یاد آ جاتی ہے۔ ان تھانے داروں کے اپنے ممالک کے اندر اگر ایک طائرانہ نظر دالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں ایک خاص طبقہ کو ہی یہ حقوق حاصل ہیں باقی سب کے لئے ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔

منافقت پر مبنی اصول اور ہر جگہ واضح نطر آتا ہے۔ اگر ان ممالک میں رہنے والے مسلمان یا دوسری اقلیت کوئی جرم کر بیٹھے تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اور اگر اس جرم سے دس گنا زیادہ وہاں کا استحقاق یافتہ طبقہ جرم کرے تو اسے جذباتی رد عمل کہہ دیا جاتا ہے۔ اگر اقلیتی رکن گولی چلائے تو وہ دہشت گردی اور اگر اکثریتی رکن گولی چلا کر ایک دو بندے مار بھی دے تو فرینڈلی فائر کہہ دیا جاتا ہے۔

ان بڑے حاکموں نے دنیا کو اپنے لئے ایسی منافقت میں دھکیل دیا ہے کہ اب یہ ساری دنیا کا وتیرہ بن گیا ہے۔ باتیں من موہنی کرو اور عمل مکروہ یہی ہماری پوری ایک نمبر دو نمبری ہے جو اب سکہ رائج الوقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments