چرس پینے کے تباہ کن نتائج


چرس کیا ہے، کیوں ہے، کس چیز سے بنتی ہے، کیسے بنتی ہے، سبز ہوتی ہے یا سیاہ، چکنی ہے یا کھردری، دنبے کی کھال میں سی کر دھوپ میں رکھی جاتی ہے یا بکری کی کھال میں، آتی کہاں سے ہے، اچھی ہے یا بری، صحت کے لئے مفید ہے یا نقصان دہ، بے ضرر ہے یا ضرر رساں، پینے کے بعد موڈ خوشگوار بناتی ہے یا چرچڑا، سکون دیتی ہے یا بے چینی، دماغ کو تیز کرتی ہے یا کند ذہن بناتی ہے، دل میں نرمی پیدا کرتی ہے یا سختی، نیند پوری کرتی ہے یا بے خوابی کا باعث بنتی ہے، پینے والے کو بے ضرر ملنگ (فقیر) بناتی ہے یا ظالم بادشاہ، یہ کون سی جڑی بوٹی یا نباتات کی قسم ہے، کون سے ملک کے کس شہر میں سب سے زیادہ پی جاتی ہے، اس کو انگلش میں کیا کہتے ہیں،  وغیرہ وغیرہ۔

ان سب کے بارے میں ہر کوئی خوب جانتا ہے، سمجھتا ہے اور بہت کچھ اس کے بارے میں لکھا جا چکا ہے۔

میرا موضوع اس نشے کو عرصہ دراز سے استعمال کرنے والوں کے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اجیرن کی ہوئی زندگیوں پر کی ہوئی تحقیق کے بارے میں ہے۔ میں اس ریسرچ کے دوران سالوں ان کی صحبت میں رہ چکا ہوں اور رہ رہا ہوں۔ چرس کو باقی نشوں کی نسبت لائٹ نشہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ، چھوٹوں اور بڑوں سب میں یکساں مقبول ہے، لیکن اس کے مضر اثرات باقی سب نشوں سے کافی زیادہ ہیں۔

خاندانوں کے خاندان اس نشے نے اجاڑ کر رکھ دیے ہیں۔ ہنستے بستے زندگیوں کو زندہ لاش بنا کے رکھ دیا ہے۔ پھول جیسے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو مرجھا کے دم لیا ہے۔ اس کے عادی شخص کے زیر کفالت بیوی بچے بس نام کے زندہ ہیں، ان کی زندگیاں انتہائی بدتر ہیں۔ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی پتھر کے دور میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اور اس کا عادی شخص پینے کے بعد ٹن ہو کر اپنی بنائی ہوئی خیالی دنیا کا خود کو بادشاہ سمجھ کر اپنے بیوی بچوں سے لاعلم خوب مزے سے خراٹے لیتے ہوئے ایک کونے میں پڑا سو رہا ہوتا ہے۔

ان کی بیچاری ازواج کے دلوں پر ہر روز کیا قیامت برپا ہوتی ہے، اس سے فقط اللہ‎ ہی باخبر رہتا ہے، اور یہ بے خبر اپنی خیالی دنیا کا تخت و تاراج سنبھالے مزے سے بے فکر جی رہا ہوتا ہے۔ ان کی ازواج محترم ہمسایوں اور اپنی سہیلیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاتیں۔ خاندان میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور بچوں میں سے سب سے زیادہ ان کے ازواج انتہائی متاثر ہوتی ہیں۔ دس پندرہ سال لگاتار پینے کے بعد یہ بیویوں کے قربت کے لائق نہیں رہتے۔

اس بات سے ذرا اندازہ لگا لیجیے کہ اگر شروع شروع میں شوہر کے چرس پینے کا بیوی کو علم ہو جائے تو وہ کتنی بے چین ہوجاتی ہے، شوہر سے کتنی جھگڑے اور تگ و دو کرتی ہے کہ اس کا شوہر نامراد اس لت میں نہ پڑے، یہ ہر چرسی کو خوب معلوم ہے، کہ شراب کا نشہ کرنے پر بھی بیوی اتنا ایکشن نہ لیتی، آخر کیوں؟ کیونکہ عورت دوسری عورت کی زندگی سے خوب آگاہ ہوتی ہے، اور اس کو دوسرے چرسی کے بیوی کی تاحیات عذاب سے دو چار زندگی کے بارے میں خوب جان کاری ہوتی ہے کہ وہ کس طرح گھٹ گھٹ کر جی رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسی طرح وہ نہ اپنے شوہر کی اور نہ ہی اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہے، نہیں کبھی نہیں۔ وہ شروع میں اپنے آپ کو بھول کر ہر وقت اللہ‎ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے، منتیں مانگتی ہے کہ اس کا شوہر لعنت بھری زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والی اس لت سے چھٹکارا پا لے۔

خوش نصیب مرد وہ ہوتا ہے جو اس نشے کی لت میں پڑنے سے پہلے اس کو ترک کر دے۔ اور بدنصیب مرد اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی زندگیوں کو وقتی خوشی اور سرور کی خاطر داؤ پر لگا لیتا ہے۔ بیوی بیچاری بھی آخر اس ذلت بھری زندگی کو اپنا لیتی ہے اور کچھ قابل معافی (عورتیں) پاپی پیٹ کی خاطر ظالم سماج کے ہاتھوں چڑھ جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ شروع شروع میں کچھ سالوں تک یہ اتنا اثر انداز نہیں ہوتا اور بندہ ٹھیک رہتا ہے جس سے بیچاری عورتیں بھی دھوکہ کھا جاتی ہیں اور نہ ہی باقی نشوں کی طرح مکمل طور پر نشئی کو مفلوج کرتی ہے۔ دکھنے میں چرسی ٹھیک ٹھاک لگتا ہے اور بیویوں کے لئے ان کو چھوڑنا گھر والوں کی وجہ سے اور بعد میں اپنے بچوں کی خاطر مشکل ہوجاتا ہے اور ہار جاتی ہے۔

میری ریسرچ کے مطابق ایک چرسی باپ کے سارے بچے اپنے باپ کو بچپن سے پیتے ہوئے دیکھ دیکھ کر سن بلوغت میں قدم رکھتے ہی اپنے والد کی طرح چرس کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ باپ کے منع کرنے پر جھٹ سے جواب دیتے ہیں کہ اگر آپ نہ پیتے، تو آج ہم بھی اس لت میں کبھی نہ پڑتے۔ بیچاری عورت اپنے بچوں کو بھی کھو دیتی ہے۔ چرسی کو دنیا ہی میں اس کی سزا دی جاتی ہے، جس سے یہ بے خبر ہو کر زندہ لاش کی طرح جی رہا ہوتا ہے۔ اس کے ارد گرد سارے لوگ اس پر اور اس کے بیوی بچوں کی کسمپرسی کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ساری زندگی باقی دنیا سے بے فکر نشے سے چور اپنی دنیا میں مگن خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہے۔ ہٹا کٹا عادی چرس خریدنے کے لئے ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

برس ہا برس چرس پینے کے بعد چرس کے مرکبات چرسی کے خون میں حلول کر جاتے ہیں۔ پھر وہ چاہتے ہوئے بھی چھوڑنے سے قاصر رہتا ہے وہ اس کو اپنے جسم کا ایک حصہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ چرسیوں کے بقول اب اگر ہم پی نہ لیں تو کسی کام کاج کے لائق نہیں رہتے (جو در اصل پینے کے بعد بھی نہیں رہتے) یہاں تک کہ ہمیں زندہ رہنے کا بھی بھروسا نہیں رہتا۔ ان کا یہ دعویٰ کتنے حد تک درست ہے، میڈیکل سائنس ہی بتا سکتی ہے۔ جب تک وہ چرس نہیں پیے گا، تب تک وہ کھانا کھانے کے بھی قابل نہیں رہتا۔

ریسرچ کے دوران چرسیوں کے اہل و عیال پر کیا گزرتی ہے، جان کر پوری دنیا سے اس ملعون نشے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا جی چاہتا ہے۔ جس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ علما شراب کی طرح اس کو بھی حرام قرار دے کر جمعہ کی نماز میں پرچار کریں کیونکہ نہ لوگوں نے اس کو آسانی سے چھوڑنا ہے اور نہ ہی مافیا نے ختم کرنا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے لئے شراب سے بھی زیادہ خطر ناک ہے جو ہر چھوٹے بڑے، دیہاڑی دار اور ملازم، برسر روزگار اور بے روزگار سب کے دسترس میں ہے۔

بدقسمتی یہ ہے، اگر آپ ایک چرسی کو نصیحت کرنا چاہے اور اس کو چھوڑنے کی ترغیب دیں تو وہ آپ کو ہی اپنا دشمن سمجھنے لگ جاتا ہے۔ چرسی کو چرسی بولنے پر انتہائی برا مانا جاتا ہے۔ اگر کہیں آپ کی موجودگی میں چرسی نے چرس پی لیا اور غلطی سے بھی کسی اور کے سامنے آپ کے منہ سے یہ نکل گیا کہ وہ بھی چرس پیتا ہے تو پھر آپ کی خیر نہیں۔ اور اتنا نہیں سوچتا کہ اگر اس سے مجھے اتنی ہی تکلیف ہوئی تو کیوں نا میں اسے آج ہی سے چھوڑ دوں۔ چرسیوں کی دوستی صرف چرسیوں ہی تک محدود رہ جاتی ہے، باقی کے ساتھ رسمی دعا سلام کر کے آگے چرسیوں کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ چرس پینے کے بعد صرف اپنے چرسی ٹولے کو پسند کرتا ہے اور دوسرے لوگوں سے حتی الامکاں دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

الغرض چرس موجودہ کورونا وبا سے بھی بڑھ کر ہے جو کچھ عرصہ بعد ختم ہو جائے گی لیکن یہ سلو پوائزن عرصہ دراز سے نسلوں کو تباہ کر رہی ہے اور پتہ نہیں کب تک برباد کرتی رہے گی۔ میرے سمیت ہر سوشل ورکر کی جانب سے ہر پینے والے سے التماس ہے کہ اپنی خاطر، اپنے بیوی بچوں کی خاطر اس زہریلی نشے کو جتنا جلدی ہو سکے ترک کیجئے اور دوسروں کو بھی اس سے باز رہنے کی تلقین کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments