احوال سفید پوش طبقے کا



دیگر سوشل پلیٹ فارم کے فوائد اپنی جگہ پر ہمارے معاشرے میں وٹس ایپ کی مقبولیت اپنی جگہ قائم ہے۔ پہلے یہ محض کال اور چیٹ کے لیے استعمال کی جاتی تھی پر اب وقت کے ساتھ اس میں بھی جدت آ گئی ہے اور اب لوگ اپنے جذبات کا اظہار وٹس ایپ پر اسٹیٹس کی صورت میں کرتے ہیں۔ پھر چاہے وہ کسی پر طنز ہو، تنقید ہو، اپنی پریشانی ہو، خوشی کا اظہار، یا افسوس کی خبر ہو سب اسٹیٹس کی صورت معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اب تو لوگ اس پر ڈیجیٹل لڑائی بھی کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حالات حاضرہ کی خبر رکھنے کے لیے دوست احباب کے اسٹیٹس چیک کرنا معمول بن گیا ہے اور اکثر شام کی چائے پیتے ہوئے وٹس ایپ پر اسٹیٹس چیک کرتا ہوں اور اسی عادت کے تحت آج بھی اسی کام میں مشغول تھا۔ کہ ایک صاحب کے اسٹیٹس نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ان صاحب سے چند سال پہلے ہی شناسائی ہوئی تھی اور پیشے کے لحاظ سے معاشرے کے اعلی ترین منصب پر فائز تھے ایسا منصب جو ملک کا مستقبل بناتا ہے ایسا پیشہ جس کی تعظیم معاشرے کا ہر فرد اور ہر طبقہ کرتا یے، جسے ہر معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لہذا فوری طور پر ان سے رابطہ کیا۔

سلام دعا کے بعد ان کے چونکا دینے والی ”نئی ملازمت کی تلاش“ سے متعلق سوال کیا تو پہلے تو مذاق میں ٹالتے رہے، زیادہ اصرار پر جیسے ان کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا۔ ان کا جواب آیا ”جب سے پرائیویٹ اسکول بند ہوئے ہیں حالات ناگفتہ بہ ہیں اور اسکول کا تعاون نا ہونے کے برابر ہے۔ تنخواہ کے معاملے میں بالکل خاموشی ہے۔ ماہ رمضان اور عید بھی بڑی مشکل سے گزاری ہے۔ اور اب جو معلومات مل رہی ہیں اس کے مطابق جب تک وبا ختم نہیں ہوتی تب تک تدریسی عمل شروع نہیں ہوگا۔

تو اب ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے۔ گھر کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں۔ اور یہ صورت حال صرف میری ہی نہیں میرے جیسے تمام چھوٹے پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ کی بھی ہے۔ سب سفید پوش لوگ ہیں کسی سے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ سب ہی پریشان ہیں سب ہی ایک دوسرے کو مالی تنگی کے بارے میں بتاتے ہیں پر اس بارے میں کسی کے سامنے لب کشائی نہیں کرتے ہیں۔ لہذا اب صورت حال انتہائی سنگین ہے اور ایک عدد ملازمت ناگزیر ہے۔

جناب من میں نے تو سنا تھا کہ والدین کو کہا گیا ہے کہ وہ اسکولز میں فیس جمع کروائیں تاکہ اسکول انتظامیہ اساتذہ کرام کو وقت پر تنخواہیں ادا کر سکیں۔ تو کیا اس پر عمل نہیں ہو رہا؟

جی ہاں، کہا تو ایسا ہی گیا تھا۔ پر یہ سب صرف زبانی کلامی حد تک ہے۔ اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں چھوٹے پرائیویٹ اسکولوں نے تنخواہ ادا کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”فیس موصول نہیں ہو رہی ہیں۔ والدین فیس جمع کروائیں گے تو ہم آپ کو تنخواہ دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ہم پربھی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہماری بھی مجبوریاں ہیں۔ لہذا معمولات زندگی کی بحالی تک اسکول بند رکھیں جائیں گے۔ تب تک آپ کو تعاون کرنا ہوگا۔“

تو اب آپ بتائیے کہ انسان، زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے اگر نیا روزگا تلاش نا کرے تو کیا کرے؟

کچھ توقف کے بعد میں نے کہا : مجھے بہت افسوس ہے۔ اور آپ سے معذرت کہ آپ کے حالات سے غافل رہا۔ مجھے بتائیے کہ کس صورت آپ کے کام آ سکتا ہوں؟ کیا مالی مدد کر سکتا ہوں؟

جناب بہت شکریہ مجھے مالی مدد نہیں چاہیے۔ بس ایک نوکری کابندوبست کردیں تو مہربانی ہوگی۔

ٹھیک ہے آپ فکر نا کریں۔ خالق کائنات پر بھروسا رکھیے۔ اللہ نے چاہا تو جلد اس مشکل وقت سے نکل آئیں گے۔ آپ کل سے ہمارے گھر کے بچوں کو آن لائن تعلیم دیں۔ آپ معاشرے کا اہم حصہ ہیں، آپ کی بدولت ہی نونہال وطن علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

ان سے بات کرنے کے بعد میں سوچ کی گہرائیوں میں ڈوب گیا کہ معاشرے کا سفید پوش طبقہ جو بظاہر خوش و خرم نظر آتا ہے پر اندر سے کتنی تکلیف دہ اذیت کا شکار ہے۔ یہ طبقہ فاقہ تو برداشت کرلیتا ہے پر کسی کے آگے دست طلب دراز نہیں کرتا۔ افسوس حکومت کی جانب سے آنکھیں بند کر لی گئی ہیں۔ معاشرہ اس طبقے سے غافل ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ایسے کتنے ہی سفید پوش لوگ مل جائیں گے جو منہ سے کچھ نہیں کہتے، پر دل ہی دل میں رب کی مدد کے خواہاں ہوں گے۔ اب یہ معاشرہ پر ہے کہ وہ کس طرح سفید پوش لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے ان کے لیے آسانی کا سامان مہیا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments