صوفی ازم : سید واد کا تغذیہ


صوفی ازم کو اسلامی رہسیہ واد/تصوف (Mysticism) بھی کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان ؓ کے خلاف بہت سے الزامات لگا ئے گئے تھے جس میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنے ہم قبیلہ (ہم برادری) کے لوگوں (بنوامیہ) کو حکومت میں ضرورت سے زیادہ حصہ داری دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے خلاف بغاوت کرائی جاتی ہے اور وہ بلا قصور شہید کر دیے جاتے ہیں۔ پھر علی ؓ خلیفہ منتخب ہوتے ہیں۔ لیکن بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے شام کے گورنر معاویہؓ یہ کہتے ہوئے علیؓ کی بیعت کرنے سے منع کردیتے ہیں کہ پہلے آپ ان لوگوں سے عثمان ؓ کی شہادت کا قصاص (بدلہ) لیں جو آپ کی فوج میں ہیں، اس کے بعد میں بیت کروں گا۔

نومنتخب خلیفہ علیؓ نے اسے اپنے خلاف بغاوت تصور کیا اور معاویہؓ کو باغی قرار دیتے ہوئے فوج کشی کے ارادے سے شام کے قریب کوفہ کو دارالخلافۃ قائم کیا تاکہ قریب رہ کر معاویہؓ کو سبق سکھایا جا سکے۔ علیؓ نے اپنی خلافت کے دوران معاویہؓ پر کئی بار چڑھائی کی، لیکن کبھی پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ اس طرح اس وقت دو متوازی اسلامی حکومتیں چلتی رہیں، جس کی قیادت قریش کے دو قبیلے کرتے رہے۔ علی ؓ کے بعد ان کے بڑے بیٹے حسن ؓ خلیفہ بنائے گئے لیکن انہوں نے معاویہؓ سے صلح کرکے خلافت ان کو سونپ دی (شاید یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ سید لوگ حسنؓ کا ذکر اس طرح نہیں کرتے جیسے ان کے چھوٹے بھائی حسینؓ کا کرتے ہیں جنہوں نے اسلامی خلافت اور خلیفہ یزید ؒکے خلاف خروج کیا اور میدان جنگ میں شہید ہوئے )

جب خلافت قریش کے ایک دوسرے قبیلے بنو امیہ میں چلی گئی تب کچھ لوگوں نے بنو امیہ کے خلاف یہ کہتے ہوئے خلافت واپسی کے لیے بغاوتی مہم (خروج) چلائی کی خلافت تو اہل بیت (بنو فاطمہ) کا حق ہے۔ خلافت تو محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ اور علیؓ (محمدﷺ کے چچیرے بھائی اورداماد) کی نسل میں ہونی چاہیے، کیوں کہ قریش کا یہ طبقہ محمدﷺ کی نسل سے زیادہ قریب تر ہے۔ (یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ علیؓ کی دوسری بیویوں سے پیدا ہونے والے لڑکوں اور ان کی نسل کو فاطمہؓ سے پیدا ہونے والے لڑکوں اور ان کی نسل کے مقابلے میں کم تر مانا جاتا ہے، علیؓ کی فاطمہؓ کے علاوہ دوسری بیویوں کی اولاد کو علی کی طرف منسوب نہ کرکے یعنی ابن علی نہ کہہ کر ان کی بیویوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جیسے محمد بن حنفیہ جو علی کی اولاد ہیں لیکن ان کی طرف منسوب نہ کرکے ان کی بیوی حنفیہ کی طرف منسوب کیا گیا) ۔

اس مہم میں ان کا ساتھ محمدﷺ اور علی ؓکے چچا عباس ؓ کی طرف منسوب خاندان بنو عباس نے دیا لیکن خلافت اہل بیت (بنو فاطمہ) کے بجائے بنو عباس (محمدﷺ کے چچا عباسؓ کی طرف منسوب قبیلہ) کو حاصل ہوتی ہے۔ عباسیوں کے دور خلافت میں اہل بیت؍سید ذات ( نسل) کے بہت سے لوگوں نے حصول خلافت کے لئے یہ کہتے ہوئے بغاوت (خروج) کیا کہ چونکی ہم لوگ علی۔ فاطمہؓ کی اولاد ہونے کی وجہ سے محمدﷺ کے گھر والے (اہل بیت) ہیں لہذا خلافت پر ان کا پیدائشی حق ہے لیکن سادات کی یہ مہمیں (جن کی تعداد 62 تیں ) کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکیں۔

جب سید ذات (بنو فاطمہ ؓ) کے لوگوں کو ظاہری حکومت یعنی خلافت نہ حاصل ہوسکی تو ایسی صورت میں روحانی حکومت کا تصور پیش کیا گیا جو تصوف یا صوفی ازم کہلایا۔ صوفی ازم کو اسلام کا اہم جز ثابت کرنے کے لئے بہت سے قصے کہانیاں گڑھی گئیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنے مشہور ہوئے کہ اب سچ مانے جاتے ہیں۔

اس روحانی حکومت میں کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے باقاعدہ عہدے اور ان کے اختیارات کا تصور پیش کیا گیا اور ان عہدوں پر وہی ولی صوفی فائز ہو سکتا ہے جس کی نسل حسنؓ حسینؓ سے ہوتے ہوئے علیؓ و فاطمہ ؓ سے ہوتے ہوئے محمدﷺ سے مل جائے یہ ایک لازمی شرط ہے۔ ان عہدوں میں غوث سب سے اعلی اور اوپر ہوتا ہے اس کے بعد قطب ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں غوث اور قطب کو ایک ہی مانا گیا ہے پھر نقبا (نقیب) جن کی تعداد تین کی ہوتی ہے۔

پھر امنا یہ، جوپانچ ہوتے ہیں۔ اوتاد یا ابرار ان کی تعداد سات کی ہوتی ہے۔ پھر ابدال جو چالیس کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ پھر اخیار ہوتے ہیں جن کی تعداد تقریباً تین سو مانی گئی ہے۔ سبھی کے علاقے اختیارات اور حقوق درجہ بدرجہ الگ الگ ہوتے ہیں۔ اور کسی کو کسی کے علاقے اختیارات اور حقوق میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ بالائی درجے کے کسی ولی یا صوفی کے انتقال کے بعد زیریں درجے کا صوفی ترقی کر کے اوپر پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر اس کی خالی جگہ اس سے نیچے کے درجے والا صوفی آکر بھر دیتا ہے۔

یہی سلسلہ درجہ بدرجہ چلتا رہتا ہے۔ صوفی ازم کہ مختلف آرائیں اور خیالات کے اعتبار سے ان کی تعداد عہدے اور درجے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کچھ صوفی کی پوزیشن بہت بالا و برتر ہوتی ہے، ان کی حکومت ان کے مرنے کے بعد بھی من و عن چلتی رہتی ہے۔ ”سید“ ہونا ایک ضروری امر ہے کوئی بھی غیر سید غوث قطب ابدال وغیرہ نہیں بن سکتا دوسری ضروری شرط صوفی کا مرد ہونا ہے یہ غوث قطب ابدال وغیرہ مخفی ہوتے ہیں اور عام آدمی اس کا پتا نہیں کر سکتا کہ کون سا صوفی غوث ہے قطب ہے یا ابدال ہے، صرف پہنچے ہوئے صوفیوں کو ہی اس کا علم ہوتا ہے کہ کون صوفی کس درجے کا ہے اور کس علاقے کا حاکم ہے۔ اکثر ان کے مرنے کے بعد کسی پائے کے صوفی کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فلاں صوفی تو قطب تھایا ابدال تھا۔ صوفی ازم کا یہ ماننا ہے کہ یہی غوث، قطب، ابدال وغیرہ مل کر پوری دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ امریکا سے لے کر انڈیا تک کے سبھی نظام حکومت انہیں اولیاء کے ماتحت ہیں۔ یہی زمین پر اللہ کے نمائندے ہیں۔

ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ پنجاب سے دلی کا سفر کرتا ہے سفر سے پہلے اس علاقے کے صوفی سے اجازت اور دعا لینے جاتا ہے صوفی دعا دے کر اسے رخصت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تم فلاں جگہ پہنچ جانا تو فلاں صوفی سے اجازت اور دعا ضرور لے لینا کیونکہ وہاں سے میرا علاقہ ختم ہو جاتا ہے اور ان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے ہے۔ اس لئے کہ ان کے علاقے میں ان کی ہی دعا اور اجازت کام کرے گی۔ اس طرح کے بہت سے قصے کہانیاں صوفی ازم کے کتابوں میں بھری پڑی مل جائے گی۔

صوفی ازم میں خلافت کا سلسلہ علیؓ سے جاکر ملتا ہے پھر علیؓ سے جاکر محمدﷺ میں مل جاتا ہے۔ صوفی ازم میں علی ؓ کو اسلام کا پہلا خلیفہ مانا جاتا ہے (دمادم مست قلندر علی دا پہلا نمبر) اس کی بنیاد بھی محمدﷺ کی احادیث کو بتایا جاتا ہے جن میں کچھ اہم مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ ”میں جس کا مولا* ہوں علی اس کے مولا ہیں“ (ترمذی حدیث نمبر 6082,6094 ) ۔

2۔ مولا کے معنی غلام مالک دوست رہنما سرپرست وغیرہ کے آتے ہیں جن کا استعمال موقع اور محل کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔

3۔ ”علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ اور وہ میرے بعد سبھی مومنین کے سرپرست ہیں۔“ (ترمذی حصہ۔ 2، صفہ 298، امام حاکم مستدرک حصہ۔ 3، صفہ 111 ) ۔

4۔ ”میں علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے“ ۔ امام حاکم مستدرک حصہ۔ 4، صفہ 96، عبداللہ بن زبیر سے مروی حدیث 4613 ) ۔

حالانکہ یہ اور اس طرح کی احادیث محدثین کے نزدیک ضعیف اور موضوع (منگھڑت) ہیں۔

صوفی ازم میں بہی خلافت دینے کا سلسلہ رہا ہے۔ جس میں ایک خلیفہ اپنے مریدوں میں سے کسی ایک کو بیعت لینے کا حق دیتا ہے۔ جو آگے چل کر اس صوفی سلسلے کا پیر یا خلیفہ کہلاتا ہے۔ یہاں بھی بخاری شریف کی مشہور حدیث ”الائمۃ من القریش“ (یعنی امیر یا خلیفہ قریش سے ہی ہے ) کا حوالہ دے کر خلافت ہمیشہ قریش یعنی شیخ سید کو ہی دیا جاتا رہا ہے، اور اس میں بھی سید کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ پھر سیدوں میں فاطمی سیدوں کو فوقیت دینے کا رواج رہا ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ حالانکہ اس حدیث کا مطلب ہی دوسرا ہے جس پر علامہ ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ”مسئلہ خلافت“ میں تفصیلی روشنی دالی ہے۔

صوفی کی جہاں قبر ہوتی ہے اسے درگاہ یا دربار کہا جاتا ہے، جس کے معنی راجہ کے دربار کے ہوتے ہیں۔ صوفیاء اپنے نام کے آگے یا پیچھے شاہ لفظ کا لقب لگاتے ہیں، جس کے معنی راجہ یا بادشاہ کے ہوتے ہیں۔ اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک بالواسطہ حکومت کا ہی قیام ہے۔ اس طرح یہ صوفیاء متوازی حکومت چلاتے تھے اور سرکار میں اپنے من پسند آدمی کو پہنچانا اور کبھی کبھی راجہ بھی اپنے من پسند آدمی کو بنوا لیتے تھے۔ کس وقت میں اور کہیں کہیں تو آج بھی ان کی پوزیشن قرون وسطی کے یوروپین پوپ کی طرح ہے، اور آج بھی یہ اشراف صوفیہ اولیاء علماء سرکار سے اپنی نزدیکی بنائے ہوئے حکومت کے نظام میں دخل رکھتے ہیں۔

مندرجہ بالا تجزیہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ صوفی ازم سید واد یا سید ازم کو کھاد پانی فراہم کرکے توانا کرتا ہے۔

اظہار تشکر:

میں حضرت مولانا پروفیسر ڈاکٹر مسعود عالم فلاحی، وقار احمد حواری ( جنرل سکریٹری آل انڈا پسماندہ مسلم محاز) اور حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحق قاسمی صاحبان کا مشکور ہوں جن کی رہنمائی کے بغیر اس مضمون کی تکمیل ممکن نہ تھی۔

فیاض احمد فیضی مصنف، مترجم، سماجی کارکن اور پیشہ سے طبیب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments