امارات اسلامیہ، حزب اسلامی اور افغان سیکورٹی فورسز


افغانستان میں امارات اسلامیہ نے عید الفطر کے موقع پر تین دن کے لئے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا، جس کا عالمی برداری نے خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا نیز کابل انتظامیہ کی جانب سے بھی اعلان کا خیر مقدم کیا گیا۔ جنگ کی ابتدا کے بعد سے یہ صرف تیسرا موقع ہے جب افغان طالبان نے عارضی طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ پہلی بار 2018 میں عید کے موقع پر ہی یہ اعلان ہوا تھا اور یہ امن عمل کو بہتر بنانے کا ایک اہم موقع تھا۔

افغان طالبان اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے گلے مل کر ایک ساتھ سیلفیاں لی تھیں۔ اس بار ایسا تو نہیں ہو ا کیونکہ طالبان نے اپنے لوگوں کو سرکاری خطے میں داخل ہونے سے باز رہنے کا حکم دیا تھا۔ بین الافغان مذاکرات کے لئے اسے ایک اہم پیش رفت قدم قرار دیا۔ تاہم عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد افغان طالبان نے افغان سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر توسیع کی توقعات کو ختم کر دیا، اس حملے میں 14 افغان اہلکار ہلاک ہوئے۔

عارضی جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی کابل انتظامیہ نے افغان طالبان کے مزید دو ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے رہائی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ باہمی اعتماد سازی کے لئے احسن اقدام کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے فوجی دستوں کے مکمل انخلا کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ 19 برس کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کا کردار پولیس مین جیسا نہیں چاہتے، تاہم انہوں نے مکمل انخلا کے لئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخابی مہم، جو کرونا وبا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، اسے ان انتخابی اعلانات کو پورا کرنے سے سود مند بنایا جاسکتا ہے۔

قابل ذکر امر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ افغان طالبان کے علاوہ بھی حزب اسلامی کے جگنجوؤ ں کو رہا کرنا شروع کر دیا گیا ہے، 2016 میں حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار کے ساتھ کابل انتظامیہ نے امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، حکمت یار امن معاہدے کے وقت 20 برس بعد وطن واپس پہنچے تھے۔ کابل انتظامیہ و گلبدین حکمت یار کے درمیان شق 11 کے مطابق حزب اسلامی کے تمام قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پایا گیا تھا۔ حزب اسلامی کے دعویٰ کے مطابق ان کے تین ہزار قیدی اس وقت کابل انتظامیہ کی جیلوں میں ہیں، کابل انتظامیہ نے حزب اسلامی کے 164 ارکان کو بگرام و پل چرخی جیلوں سے رہا کیا۔ جب کہ افغان طالبان کے دوہزار قیدیوں کی رہائی کے اعلان کے بعد 900 دوحہ معاہدے کے تحت قیدی رہا کیے جاچکے۔

افغانستان میں امن کے لئے بین الافغان مذاکرات کی ضرورت پر عالمی برداری کی جانب سے مسلسل زور و دباؤ بڑھایا جا رہا ہے، جس کے بعد ہی کابل انتظامیہ نے اندرونی سیاسی خلفشار کے حل ہوتے ہی دوحہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کا افغان طالبان نے بھی خیر مقدم کیا۔ دوحہ معاہدے پر دونوں فریقین جلد ازجلد عمل درآمد چاہتے ہیں، امریکا کے لئے اس لئے یہ ضروری ہے کہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام کے سامنے صدر ٹرمپ 19 برس کی جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ افغان طالبان بھی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے بعد افغان عوام کو ایک پرامن ماحول کی فراہمی کے لئے سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔

عید الفطر میں کی جانے والی جنگ بندی کا افغان عوام کی جانب سے زبردست خیر مقدم کیا گیا، گزشتہ برس عید الفطر کے موقع پر جب افغان طالبان نے جنگ بندی کی تھی تو بدقسمتی سے اس موقع پر افغان طالبان کے اہلکاروں کو حکومتی فورسز و داعش نے نقصان پہنچایا تھا۔ افغان طالبان اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ”عوام کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا بھرپور خیرمقدم کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ ناجائز فوجی قبضے کی وجہ سے مسلط شدہ جنگوں سے کتنے تنگ آچکے ہیں، جو جنگ بندی کے چند لمحوں کو بھی غنیمت سمجھتے ہیں! ۔ امارت اسلامیہ جو اس طویل جنگ کا شکار ہے۔ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ افغانستان کو نہ صرف مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے، بلکہ جنگ اور اس کے اسباب کے مستقل خاتمے کی بھی ضرورت ہے۔ افسوس کہ عارضی جنگ بندی کے ذریعے افغان مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا“ ۔

یہ پہلو یقینی طور پر قابل غور ہے کہ عارضی جنگ بندیاں افغانستان میں مستقل جنگ کے خاتمے کا متبادل قرار نہیں دی جاسکتی اور خطے میں خو ف کی فضا میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملوں و جھڑپوں سے عوام میں بے یقینی کے سائے بڑھ جاتے ہیں۔ دوحہ معاہدہ کے کئی تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں، جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ امریکا و افغان طالبان کے درمیان طے معاہدہ اپنے نکات کے باعث نہایت اہمیت کا حامل ہے، جولائی تک امریکی افواج کی کمی اور 2021 تک فوجی اڈوں کے خاتمے و تمام افواج کے انخلا کے وعدوں پر عمل درآمد سے غیر ملکی افواج کی مداخلت بحران کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

فی الوقت اس وقت اہم ترین مسئلہ قیدیوں کے تبادلے کا ہے، جس پر سست روئی و تاخیر سے عمل درآمد ہورہا ہے، جو امن کے موقع کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں، آنے والے ہفتوں میں اس امر کی توقع کی جا سکتی ہے کہ افغان طالبان و دیگر سیاسی دھڑے ایک متفقہ پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر افغانستان کے نظام و انصرام سمیت مستقل جنگ بندی کے لئے غور وفکر کریں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، گو کہ افغان طالبان کابل انتظامیہ کی کسی شخصیت کو سرکاری حیثیت میں بین الافغان مذاکرات کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں ہے، لیکن غیر سرکاری طور پر مذاکرات کی میز پر کسی بھی اسٹیک ہولڈر کے ساتھ افغانستان کے مستقبل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی حمایت کا امکان موجود ہے۔

افغانستان میں امن کے مستقل و پائدار قیام کے لئے سب سے اہم پہلو و مطالبہ یہی رہا ہے کہ جب تک سرزمین افغانستان سے جارحیت کرنے والے نکل نہیں جاتے اس وقت تک جنگ کے اسباب کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ افغان طالبان کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتیں و گروہ، افغان طالبان کی مخالف ہونے کے باوجود اس بابت مینڈیٹ تسلیم کرچکی ہے کہ امریکا نے افغان طالبان سے درد سر مذاکرات کے بعد معاہدہ کرکے انہیں افغانستان کا سب سے بڑا و اہم اسٹیک ہولڈر تسلیم کر لیا ہے۔

چھوٹے گروہ و سیاسی دھڑے محدود علاقوں میں افغان طالبان کے ساتھ قوی انداز میں طویل خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے ان کے حق میں زیادہ بہتر یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ نئے افغانستان میں ان کی خواہشات کے مطابق زیادہ نہیں تو کم ازکم قابل قبول کردار مل جائے، بادی النظر اس حوالے سے افغان طالبان نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے افغانستان پر حاکمیت کا دعوی کرنے سے گریز کیا۔

سلامتی کونسل کی جانب سے تاحال افغان طالبان پر پابندیاں نہیں ہٹائی جا رہی، گوکہ یہ بھی دوحہ معاہدے کا حصہ ہے کہ امریکا، افغان طالبان پر اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کی پابندیاں ہٹانے میں کردار ادا کرے گا۔ تاہم روس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل طالبان پر عائد تعزیرات اس وقت تک نہیں اٹھائے گی جب تک امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں ہو جاتا۔ ان شرائط میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات بھی شامل ہیں۔

ضمیر کابلوف کا کہنا تھا کہ 29 مئی سے قبل طالبان پر عائد پابندیاں اٹھا لی جاتیں، اگر 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہو چکے ہوتے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد 10 مارچ سے بین الافغان مذکرات کا آغاز ہونا تھا۔ تاہم اس وقت معاہدے کا اہم مرحلہ قیدیوں کے تبادلے کا مکمل نہیں ہوا، توقع ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے، کابل انتظامیہ مزید تاخیری حربے استعمال کرنے سے گریز کرے گی۔

افغان طالبان نے عارضی جنگ بندی کرکے ثابت کیا ہے کہ پر امن ماحول، افغان عوام کی دیرینہ خواہش ہے، اس لئے کابل انتظامیہ کو عوام کا دباؤ کا سامنا بھی کرنا ہوگا کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے لئے ماحول کو جلد ازجلد سازگار بنائیں۔ اسی لئے امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے پرجلد عمل درآمد کرنے پر زور دے رہی ہے، جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی، جہاں جنگ کی باقی وجوہات کے خاتمے اور ملک میں پائیدار امن، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے پر تبادلہ خیال ہوگا۔

افغان طالبان کا ماننا ہے کہ ”امارت اسلامیہ ایسے کسی بھی اقدام کی تعریف کرتی ہے جو امن کی طرف گامزن ہوگا، بین الافغان مذاکرات کے لئے ماحول سازگار بنائے گا ملک میں پائیدار امن، سلامتی اور استحکام جس سبب بنے گا اور بالآخر ایک جامع، آزاد اور مستحکم اسلامی نظام کے قیام کا باعث بنے گا۔“ تشدد کے خاتمے لئے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور افغان عوام میں ایک مبہم سہی، امید جگا سکتی ہے کہ اس تنازع کا خاتمہ بالآخر ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments