نا اہلِ اعظم اور ٹولہ



پی ٹی آئی کی حکومت مکمل طور پر ہر نا اہل ثابت ہو چکی ہے۔ نہ صرف کسی ایک میدان میں بلکہ ہر ایک ادارے کی کارکردگی صفر ہے۔ اور کرونا کی آمد نے تو اس نا اہلی کی حقیقت اور بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ معلوم نہیں کہ جو اب بھی عمران خان کے ساتھ ہیں اور ان کو اہل سمجھتے ہیں ان کے پاس کیا جواز ہے۔ سوائے ہٹ دھرمی اور بے شعوری کے۔ محکمہ تعلیم کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ہر دن نہیں بلکہ ہر گھنٹے بعد وزیر تعلیم کا بیان تبدیل ہوتا ہے۔

عمران خان اگر کبھی اس معاملے پر بات کریں تو ان کے اور شفقت محمود کے بیانات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ خبر آتی ہے کہ میٹرک کے امتحانات نہیں ہوں گے۔ ابھی یہ خبر پوری طرح پھیلتی بھی نہیں ہے کہ گھنٹے بعد ایک اور سٹیٹمنٹ آ جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ طلبا تیاری کریں، امتحانات ہوں گے۔ اسی طرح ایک ہی معاملے میں آئے روز تبدیلیاں جاری رہتی ہیں۔ یا اکثر اپنی نا اہلی اور منصوبہ بندی کی صلاحیت کے فقدان کو ڈھانپنے کے لیے طلبا کو یہ کہہ کر عجیب دھوکے اور کشکمکش میں رکھا جاتا ہے کہ فلاں فیصلہ زیر غور ہے۔

اور آج تین ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ تمام معاملات زیر غور ہی ہیں۔ بہتر فیصلہ نہ سہی بدتر سہی مگر وہ بھی نہیں کیا جاتا اس حکومت سے۔ پی آئی اے تیارہ حادثے کے بعد ورثاء کی جانب سے جو بیانات آئے وہ نہایت مایوس کن تھے۔ ان کی مدد کو، انھیں پوچھنے کو کوئی حکومتی وفد نہیں گیا۔ نہ کوئی حکمت عملی منظر عام پر آئی۔ لواحقین کے ورثاء کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی مناسب اطلاع نہیں دی جا رہی، نہ ان کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔

کئی ورثاء کو بغیر ڈی۔ این۔ اے بھی لاشیں دی گئیں۔ یہ کام حکومت کو کرنا تھا جو وہ خود کر رہے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ہر دفتر دوسرے دفتر کی جانب جانے کا مشورہ دیتا ہے۔ اور اس دوران ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا ناروا برتاؤ الگ۔ ایسے حالات کے باوجود بھی سیر و تفریح جاری رکھنے پر نتھیا گلی کی فضائیں عمران خان صاحب کو سلام کہتی ہیں۔ یہ حکومت کوئی ایک مناسب فیصلہ تک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

لاک ڈاؤں میں نرمی اس وقت کی جب کرونا کا پھیلاؤ عروج کی طرف جا رہا تھا۔ لاک ڈاؤن عین اس وقت اٹھایا جن دنوں پاکستانیوں کا زور بازاروں کی طرف بھاگنے پر ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان میں تقریباً ہر گھر بیمار ہے۔ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہزاروں کے حساب سے جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم صاحب کے ہی معاون خصوصی برائے صحت نے بازاروں میں رش دیکھ کر لاک ڈاؤں دوبارہ نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ مگر حکومتی عہدیداروں کا آپس میں تضاد تو عام سی بات ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کرونا کی جانب عمران خان کا رویہ بھی شروع کے دنوں میں غیر سنجیدہ رہا۔ اور کوئی حکمت عملی نہ بنائی۔ اور آج حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ صرف دو سال کے عرصے میں جو نا اہلی اس حکومت نے دکھائی اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس حکومت کے پاس کسی بھی معاملے سے نمٹنے کی کوئی منصوبہ بندی نھیں۔ تمام حکومتی صلاحیتوں سے خالی ہے۔ اگر انھیں کچھ آتا ہے یا دو سال میں انھوں نے کچھ کیا تو وہ الزام تراشی کا بازار تھا۔

یہ سب افراتفری اسی کا اظہار کرتی ہے کہ خان صاحب سے حکومت نہیں سنبھل رہی۔ ملک نہیں چل رہا۔ وہ مکمل پھنس چکے ہیں۔ مگر خان صاحب تو پھر خان ہیں، ہار نہیں مانیں گے۔ عوام کو سمجھنا ہو گا کہ باتوں سے ملک چلتے ہوتے تو پاکستان آج ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہوتا۔ عمران خان نے دراصل سادہ عوام کو قابو کرنے کے لیے جال پھینکا تھا۔ ان کی یہ سازش کامیاب رہی۔ عوام میں عام کیا گیا کہ کرپشن ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا ملک کرپشن کی زد میں ہے۔ اور عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر بٹھایا کہ ملکی بہتری کا ایک ہی حل ہے کہ اسے کرپشن فری بنا دیا جائے اور کرپشن فری بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ن لیگ کے صدر کو گرفتار کر لیا جائے اور ان سے آپ کا پیسہ نکلوایا جائے۔

اقتدار میں آ کر اپوزیشن کو نیب کے حوالے کر دیا اور عوام پر ظاہر کیا کہ میں نے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حل کر دیا۔ عوام خوش ہو گئے کہ ہمارا ملک کرپشن سے آزاد ہوا اور سب سے بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔ اور ایسا صرف عمران خان ہی کر سکتا تھا۔ کرپشن ہوتی کیا ہے، ثابت ہوئی، نہیں ہوئی اس سے عوام کو کوئی سروکار نھیں۔ عمران خان صاحب بھی انھی لیڈروں میں سے ہیں جنہوں نے عوام کی سیاسی بے شعوری کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments