فضہ پاگل کیسے ہوئی؟


میں نے حمزہ کو ناشتہ کرانا ہے تمھیں میری بات سمجھ نہیں آ رہی میں پہلے حمزہ کو ناشتہ کر اؤں گی پھر خود کھاؤں گی تم روز آکر کہتی ہو ناشتہ کرلو ناشتہ کر لو میں دوبارہ نہیں لاؤں گی مجھے کوئی کیوں ناشتہ لاکر دے گا میں خود ناشتہ بناتی ہوں اور یہ کیا انڈا اور توس میں انڈا توس نہیں کھاتی دیر سے ناشتہ کرتی ہوں مگر پراٹھا اور انڈا وہ بے تکان بول رہی تھی کوئی سنے نہ سنے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

٭ ٭ ٭

فضہ فضہ کہاں مر گئی ہو؟ صبح کے آٹھ بج رہے تھے اور فیضان الماری کے آگے کھڑے ہو کر فضہ فضہ چیخ رہا تھا جی جی کیا کہہ رہے ہیں؟ فضہ کچن میں سے بھاگتی ہوئی آئی۔ میں نے تمھیں کہا تھا کالی شرٹ استری کر دینا کہاں ہے؟ وہ میں آج کل میری طبیعت فضہ نے آدھا ادھورا جواب دیتے ہوئے فیضان کی طرف دیکھا۔ نہیں کیا میری طبیعت کیا ماں بن رہی ہو تو کون سا کوئی انوکھا کام کر رہی ہو؟ میں ابھی کر دیتی ہو فضہ نے جواب میں کہا۔ کوئی ضرورت نہیں یہ کہتے ہوئے فیضان نے دوسری شرٹ لی اور باتھ روم میں چلا گیا۔

فضہ اور فیضان کی شادی کو ابھی چند ہی مہینے ہوئے تھے مگر فضہ فیضان کے ہر وقت کے جلے کٹے رویے سے اس رشتہ سے ہی اکتانے لگی تھی اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی پنجرے میں قید ہو گئی ہو جہاں سے رہائی ملنے کے امکانات بھی صفر ہو۔

٭ ٭ ٭

دیکھو میں تم سے کہہ رہی ہوں مجھے کپڑے نہیں بدلنے ابھی حمزہ اسکول سے آئے گا میں اسے کھانا کھلاؤں گی ، نہلاؤں گی اور جب نہلاؤں گی تو وہ پانی میں چھپاکے کرے گا اور میرے کپڑے گیلے ہوجائیں گے میں پھر کپڑے بدل کر نماز پڑھوں گی اس نے نرس کی کپڑے بدلوانے کی کوشش کو ناکام کرتے ہوئے کہا۔

٭ ٭ ٭

تمھاری شادی کو سال ہونے کو آ گیا مگر مجال ہے جو تمھیں میری کوئی بات سمجھ میں آ جائے فضہ کی ساس صبح صبح اس پر چیخ رہی تھی ہوا کچھ نہیں تھا فقط اتنا کہ اسے ماں بنے ہوئے مہینہ ہوا تھا اس کا معصوم بیٹا اسے رات کو سونے نہیں دیتا تھا آج صبح جو جاکر وہ سویا تو اس کی بھی آنکھ لگ گئی اور کمرے سے آنے میں دیر ہو گئی جس کی وجہ سے جمعدار کو کچرا ساس کو دینا پڑا اور وہ سیخ پا ہو گئی بھلا اس کے ہوتے ہوئے انھوں نے کیوں کچرا دیا۔

٭ ٭ ٭

تم پھر آ گئی مجھے سمجھ نہیں آتا تم میرے پاس کیوں آتی ہو؟ میں نے تمھیں بتایا ہے مجھے ابھی کپڑے دھونے ہیں، سالن روٹی کرنا ہے، حمزہ آ جائے گا اسے بھی میں چاہیے ہوگی اس گھر کا میرے بغیر گزارا نہیں اور تم آجاتی ہو میرا خیال کرنے تمھیں کس نے کہا ہے میرا خیال کرنے کے لیے۔

٭ ٭ ٭

آآآآآآ اس کی دلخراش چیخیں گونج رہی تھی مگر اسے کوئی فرق نہیں پر رہا تھا اس نے اس کا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے کے اندر رکھ دیا تھا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ چائے دیتے ہوئے غلطی سے چائے اس کے شوہر نامدار کے ہاتھ پر گر گئی اور یہ غلطی اس کا گناہ بن گئی۔

٭ ٭ ٭

کیا ہوا بیٹا تم ملنے نہیں آئی؟ فضہ کی ماں اس سے فون پر بات کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی کچھ نہیں امی بس ایسے ہی۔ اس کے ہاتھ پر چھالے پر گئے تھے اس کو ڈاکٹر کے ہاں لے کر جانے کا تکلف کون کرتا گھر کی پرانی دواؤں میں سے برنول ملی وہ اور ٹوتھ پیسٹ کا سہارا لے کر اپنے جلے ہاتھ کو آرام پہنچانے کی کوشش کی اور اب کچھ آرام آیا تھا اس لیے فون پر جواب دے رہی تھی جسے وہ فیضان سے چھپا کر رکھتی کبھی کہیں اور کبھی کہیں اور جب کبھی اس کی ساس آس پڑوس میں جاتی اور منا سوتا تو چھپ کر اماں سے بات کرتی اس نے اماں کو فیضان کی حرکت کے بارے میں بھی نہیں بتایا کیونکہ اسے پتا تھا وہ اس کے لیے تڑپے گی مگر کچھ کر نہیں سکے گی کیونکہ ابا کہیں گے ڈولی یہاں سے اٹھی ہے جنازہ شوہر کے گھر سے اٹھے گا۔ ایسے معاملے میں اس کی ماں بھی بے بس تھی اور وہ بھی۔

٭ ٭ ٭

دوائی یہ دوائی میرے لیے ہے نہیں نہ میرے لیے دوائی کیسے ہو سکتی ہے تمھیں پتا ہے نہ میں دوائی لوں گی تو خرچہ ہوگا پھر گھر کیسے چلے گا پتا نہیں تم کیسی باتیں کرتی ہو دوائی اور وہ بھی میرے لیے ہی ہی ہی وہ تالیاں پیٹنے لگی۔

٭ ٭ ٭

خون تھا یا خون کا فوارہ جو اس کے اندر سے رس رہا تھا وہ آج کل پھر امید سے تھی مگر گھر کے سارے کاموں کا بار اس کے سر پر تھا منا زیادہ رونے لگتا تو وہ منہ میں چوسنی لگا دیتی اور کاموں میں لگ جاتی جب فارغ ہوتی تو جاکر منے کو دیکھتی وہ بچارا تھک کر آنکھیں موند چکا ہوتا اسے زبردستی دودھ پلاتی، نہلاتی کیونکہ وہ اسے سوتا نہیں چھوڑ سکتی تھی ورنہ وہ بچارا گندا اور بھوکا رہ جاتا آج بھی وہ اسی طرح مصروف تھی کہ گیلے فرش پر اس کا پاؤں پھسلا اور جس کا ڈر تھا وہی ہوا اس کا بچہ ضائع ہوگیا اور اب خون جابجا تھا اس کے گرنے کی آواز سن کر بھی کوئی آس پاس نہ بھٹکا اس نے اپنے اندر قوت جمع کی اور خود کو کھینچتے ہوئے کمرے میں لائی اور ماں کو فون کیا جو فوراً پہنچی۔

اے بی تمھیں کیسے خبر ہو گئی بیٹی کے گرنے کی ساس نے دیکھا تو لڑنے کھڑی ہو گئی۔ دیکھیے میں اس کو ہسپتال لے کر جا رہی ہوں اسے علاج کی ضرورت ہے، اور اگر نہ جانے دو تو ۔ ٹھیک ہے پھر میں چیخ چیخ کر محلہ اکٹھا کرتی ہوں اور دکھاتی ہوں آپ کی اصلیت یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ ہاں! ہاں! لے جاؤ لے جاؤ تم کو کون سا رکھنا ہے یہیں واپس آنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی کہا تو انھوں نے بھی ٹھیک تھا دوا دارو کے بعد وہ پھر وہی آ گئی تھی۔

٭ ٭ ٭

تھپڑ مارنا دس اور اسے گننا ایک تو اس کی عادت تھی شادی کے بعد تو وہ یہ بھی بھول گئی تھی کہ فیضان سے کتنے تھپڑ کھا چکی ہیں اور ابھی بھی وہ اس کا گال لال کر کے گیا تھا صرف اس بات پر کہ پراٹھے پر گھی کم تھا اور سوکھا پراٹھا کھانا اس کی توہین تھی گھی کم ہونے میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا مہینہ کے آخر میں راشن کی یہیں حالت ہوتی تھی مگر اس کو تو بس اس پر ہاتھ اٹھانے کا موقع چاہیے ہوتا تھا۔

٭ ٭ ٭

اس کے اسکول میں داخلے کی عمر ہو گئی ہے اس کا داخلہ کرا دے۔ فضہ نے فیضان سے کہا۔ تو میں کیا کروں اگر اسکول کی عمر ہو گئی ہے خود کرا دو جاکر داخلہ۔ مگر پیسے وہ تو آپ دیں گے نہ۔ میرے پاس ان آلتو فالتو اسکولوں میں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں کسی مدرسہ میں داخل کرا دو۔ اگر میں محلہ کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا دوں تو ۔ فضہ نے ہمت کر کے کہا۔ گھر میں آتا ہوا پیسہ کسے برا لگتا ہے اس لیے اسے بھی اجازت مل گئی اور بچے اس کے پاس پڑھنے آنے لگے۔

٭ ٭ ٭۔

امی مجھے آپ کو ایک بات بتانی ہے رانیہ پڑوس میں رہتی تھی اور اسے فضہ کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے اور آج وہ ٹیوشن سے جلدی بھی واپس آ گئی تھی جس پر اس کی امی حیران تھی مگر اس نے ان کی خود ہی مدد کردی۔ ہاں! بتاؤ، امی ٹیچر بہت عجیب ہیں بیٹھے بیٹھے خود سے باتیں کرنے لگتی ہیں ان کا بیٹا رو رہا ہوتا ہے مگر وہ اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کرتی اور آج تو بہت ہی عجیب حرکت کی انھوں نے کبھی وہ اپنے ہاتھوں پر ، کبھی منہ پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں تو انھیں بتائے بغیر آ گئی۔

یہ باتیں سن کر رضیہ بھی ڈر گئی اور اس نے رانیہ کو ٹیوشن پڑھنے بھیجنا بند کر دیا۔
٭ ٭ ٭

مجھے فیس کے لیے پیسے چاہیے فضہ نے فیضان سے کہا۔ کیوں بڑا شوق چڑھا تھا ٹیوشن پڑھانے کا کہاں گئے بچے؟ اب کوئی پڑھنے نہیں آ رہا۔ تم سے کوئی پڑھنے آئے گا بھی نہیں اماں بھی کہہ رہی تھیں تمھیں دوڑے پڑنے لگے ہیں تم پاگل ہو گئی ہو پا گل خانے میں داخل کرانے کی ضرورت ہے کہیں تمھارا اثر میرے بچے پر بھی نہ پڑ جائے۔ نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے لعل کو سینے سے لگا لیا۔

٭ ٭ ٭

یہ آپ کو کہاں سے ملی ہیں؟ کسی نے اس کا ہاتھ کس کر پکڑا ہوا تھا اور ایدھی کے شیلٹر ہوم میں کھڑا ہوا تھا۔ کہاں سے ملی ہے؟ کیا مطلب؟ ارے بیوی ہے میری دماغ خراب ہوگیا ہے، بہکی بہکی باتیں کرتی ہیں فیضان نے اس کا تعارف کرایا۔ اگر آپ کی بیوی ہیں تو آپ ان کا علاج کرائے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں؟ او بھائی میں جتنے میں اس کا علاج کر اؤں گا اتنے میں دوسری لے آؤں گا۔ اس نے صحیح دماغی حالت والی لڑکی کو مسلسل ذہنی اور جسمانی تشدد سے ذہنی بیمار کر دیا تھا اور آج بغیر کسی شرمندگی کے کھڑا ہوا تھا ہمارے معاشرے میں اکثر ذہنی معذور دوسروں کو ذہنی معذور کردیتے ہیں مگر ان ذہنی معذوروں کو کوئی نہیں پوچھتا ملکہ وہ آزادانہ گھومتے ہیں اور جن پر تشدد ہوتا ہے ان کی مدد کرنے کے بجائے کہا جاتا ہے تمھارا جنازہ شوہر کے گھر سے اٹھے گا حتی کہ جنازہ نہیں اٹھتا بلکہ ایک زندہ لاش پاگل خانے میں بیٹھ کر اپنے حمزہ کو یاد کرتی ہے اس کو اپنا اور اردگرد کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور جنھوں نے اس حال میں پہنچایا ہوتا ہے وہ عیاشی کر رہے ہوتے ہیں ماں باپ بھی فاتحہ پڑھ لیتے ہیں اور جنھوں نے کیا ہوتا ہے وہ تو سب سے پہلے پڑھتے ہیں شرمندہ ہوئے بغیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments