تئیس ملین ’بیکار‘ پاسپورٹس مجھے کہاں اور کیسے ملے؟


اگر میں یہ کہوں کہ مجھے تئیس ملین بیکار پاسپورٹ کسی جگہ سے ملے ہیں تو شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بے کار پاسپورٹ مجھے کسی بڑے ڈبے یا پھر کسی وین سے ملے ہوں گے جو کسی ائرپورٹ کے پارکنگ میں پارک کی گئی ہو۔ مگر یقین مانیں مجھے یہ گمشدہ پاسپورٹ نہ کسی گھر اور نہ ہی کسی بڑے بیگ میں ملے ہیں۔

جی ہاں مجھے یہ بیکار پاسپورٹ اقوام متحدہ کے دفتر سے ملے ہیں۔ اب تو آپ سو فیصد یقیناً سے سوچ رہے ہوں گے یہ تو ممکن ہی نہیں یا پھر شاید میں مذاق کر رہا ہوں۔ یہ دو ہزار سولہ 2016 کا واقعہ ہے جب اقوام متحدہ جنیوا سویٹزرلینڈ کے ترجمان نے کھا کہ ’اقوام متحدہ صرف اور صرف ان ممالک کے پاسپورٹوں کو قبول کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے ممبر ہیں یعنی چین کے پاسپورٹوں کو قانونی طور پے قبول کرتا ہے جبکہ تائیوان کے پاسپورٹوں کو قبول نہیں کرتا‘۔

اقوام متحدہ کے اس وقت 2016 کے ترجمان نے یہ بات کیوں اور کیسے اور کس قانون کے روشنی میں کہا تھا اس کے جاننے کے لیے میں نے بحیثیت ایک صحافی کے حیثیت سے ایک مراسلہ گزشتہ مہینے اقوام متحدہ جنیوا آفس کو بھیجا اور پوچھا کی آیا اقوام متحدہ میں ایسی کوئی قانونی فہرست یا قانون موجود ہے جس سے قانونی اور غیر قانونی پاسپورٹوں کی لسٹ مرتب ہوئی ہے؟

جواب میں اقوام متحدہ جنیوا کے آفس سے جواب آیا کہ اقوام متحدہ کے آفس میں جانے کے لیے اقوام متحدہ کے قانون میں کوئی مخصوص قانون موجد نہیں ہے مگر اقوام متحدہ صرف اور صرف چین کے پاسپورٹ کو قانونی حیثیت دیتا ہے نہ کہ تائیوان کے پاسپورٹوں کو۔

اقوام متحدہ جنیوا سویٹزرلینڈ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’اقوام متحدہ کی قرارداد 2758 / 1971 کے تحت تائیوان کے پاسپورٹوں پے اقوام متحدہ کے دفاتر میں داخل نہیں ہوسکتے‘ ۔

مگر یہاں میں اپنے قارئین کو یہ بات بتاتا چلوں کہ تائیوان کے پاسپورٹوں پے تائیوان کا ایک وفد دو ہزار چودہ اور دو ہزار پندرہ ( 2014۔ 2015 ) میں اقوام متحدہ کے اسی دفتر میں نہ صرف داخل ہوچکا تھا بلکہ قانونی طور پے انھوں نے سیمیناروں میں بھی حصہ لیا تھا۔

اسی 2014 اور 2015 والی بات کو جواز بنا کے میں نے ایک دفعہ پھر اقوام متحدہ کے آفس میں معلومات کے پیشے سے وابستہ دفتر سے معلوم کیا اور پوچھا کہ وہ کون سے عوامل تھے اگر قرارداد 1971۔ 2758 کے بقول تائیوان پاسپورٹوں کی کوئی حیثیت نہیں تو کس قانون کے بدولت تائیوان کے باشندوں کو 2014 اور 2015 میں سیمیناروں میں اسی اقوام متحدہ کے آفس میں نہ صرف جانے کی اجازت ملی تھی بلکہ انھوں کی قانونی طور پے سیمیناروں میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کے جواب میں اقوام متحدہ نے جواب میں لکھا کہ ’چونکہ قرارداد اپنے جگہ پے موجود ہے مگر ان قراردادوں پے اس وقت بہت سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے جب چین اور تائیوان کے حالات زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم تائیوان پے نظر دوڑائیں تو وہ ایک خود مختیار جمہوری ملک ہے جس کے سربراہ کو ایک جمہوری طریقے سے چنا جاتا ہے اور اس کے برعکس چین میں ایک پارٹی کی آمریت قائم ہے۔ تائیوان کے شہری اپنے پاسپورٹوں پے دنیا کے 171 ممالک میں بغیر ویزے کے داخل ہوسکتے ہیں جن میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور یورپ کے تمام ملک بھی شامل ہیں۔

انیلی اور پارٹنر جو ایک دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹوں کی درجہ بندی کرتی ہے اور برطانیہ کا ایک مستند ادارہ ہے اس کے 2020 کے اعداد شمار کے حساب سے تائیوان کے پاسپورٹ کی درجہ بندی بتیس نمبر 32 نمبر پے ہے جب کہ اس کے برعکس چین کے پاسپورٹ کی درجہ بندی 72 نمبر پے اور چین کے پاسپورٹ پے 71 ممالک میں بغیر ویزے پا جایا جاسکتا ہے اور سویٹزرلینڈ جس کو اقوام متحدہ کے دفتر جنیوا کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے اس نے بھی تائیوان کو آج سے ستر سال پہلے یعنی 1950 میں تسلیم کر لیا۔ پہلے سے کر لیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ تئیس ملین تائیوان کے شہریوں کی پاسپورٹس کی اقوام متحدہ کے دفتر میں کوئی حیثیت نہیں۔

اب یہاں پے ایک سوال اقوام متحدہ کے بارے میں باقی رہ جاتا ہے کہ کیا واقعی اقوام متحدہ کے قرارداد 1971۔ 2758 کے روشنی یا اقوام متحدہ کے قانون میں کوئی قانونی جواز موجود ہے جس کے بدولت تائیوان کے تئیس ملین باشندوں کے قانونی پاسپورٹوں کو اقوام متحدہ نے اپنے کوڑے دان میں ڈال کے ان کے قانونی حقوق کو ختم کر کے ان کو اقوام متحدہ کے دفتر نہ جانے پے روک کے رکھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments