جسٹس قاضی فائز عیسی کا جرم کیا ہے؟


وہ ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ اس کا باپ بانیان پاکستان میں سے ایک تھا۔ قائد اعظم کے اس ساتھی کا نام تھا قاضی محمد عیسی۔ جنھوں نے قائد اعظم کے حکم پر بلوچستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ جناح صاحب سے سیاست کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر مختلف بلوچ سرداروں سے ملاقاتیں کر کے انھیں بلوچستان کا الحاق پاکستان سے کرنے پر رضا مند کیا۔ کچھ سردار بلوچستان کو آزاد رکھنا چاہتے تھے یعنی نہ تو ڈومینین پاکستان کا حصہ نہ وفاق بھارت کا۔ یہ قاضی عیسی صاحب کی ذاتی کاوشیں تھیں جس کے سبب بلوچستان کا صوبہ آج پاکستان کا حصہ ہے۔

قاضی محمد عیسی جیسے بڑے باپ کا بیٹا ہونا جہاں جسٹس فائز عیسی جیسے بیٹے کے لیے ایک طرف افتخار اور خوش قسمتی کی بات تھی وہیں انھیں علم تھا کہ یہ خوش بختی بیٹے کے اوپر بھاری ذمے داری بھی عائد کرتی ہے کہ وہ اپنے کردار سے اپنے باپ کا نام داغدار نہ کردے۔ بڑے باپوں کی اولادیں اکثر کم ہی ایسا سوچتی ہیں۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی کے لیے اس ذمے داری کو نبھانا بہت اہم تھا۔

اسی سوچ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو شروع سے ہی محنت کا عادی بنا دیا تھا۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اپنے والد کے شجر سایہ دار کی چھاؤں سے الگ ہو کر بھی اپنے لیے اپنی قابلیت سے کوئی مقام پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بطور وکیل کوئٹہ ہائیکورٹ میں کام کے دوران ہر کسی کو اپنے کردار کی عظمت کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس کے بعد بطور جج بلوچستان ہائی کورٹ اور بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کے دوران ان کی شخصی خوبیوں، قابلیت، ایمانداری، قانون و انصاف کی سر بلندی پر ایمان رکھنے والے جوڈیشل افسر کے بطور ان کی شناخت مزید مضبوط ہی ہوئی ہے۔

جسٹس فائز عیسی نے وکالت کی تعلیم لندن کی لنکن ان لا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ وطن واپسی پر انھوں نے بطور وکیل اپنے کیریر کا آغاز 1985 میں بلوچستان ہائیکورٹ سے کیا۔ 1998 میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ 2009 سے لے کر 2014 تک بلوچستان ہائیکورٹ کے جج اور چیف جسٹس رہے۔ 2014 میں وہ سپریم کورٹ کے جسٹس مقرر ہوئے۔ اس وقت وہ بلوچستان سے سپریم کورٹ کے واحد جسٹس ہیں۔ اپنی سنیارٹی کے لحاظ سے وہ اگلے برس 2021 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین و انصاف کے ساتھ کھڑا رہنے کے ان کے غیر متزلزل عزم کو دیکھ کر اہل اقتدار ان کے چیف جسٹس بننے کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسی پاکستانی قانون پر وسیع گرفت اور علم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ماضی میں بے شمار دقیق کیسوں میں عدلیہ کی درخواست پر وہ قانونی رہنمائی فراہم کرچکے ہیں۔ کافی غیر ملکی عدالتوں میں وہ پاکستان کی نمائندگی بھی کرتے رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کے فیصلے اپنے اعلی معیار، انصاف و قانون کی بالادستی، جرات اور سمجھ کے سبب مختلف بین الاقوامی قانونی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں وہیں ان کے لکھے گئے فیصلوں کی فصیح و بلیغ تحریر پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔

جسٹس فائز عیسی کے یوں تو بطور جج بے شمار فیصلے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں مگر ان کے خصوصاً دو عدد فیصلے ایسے ہیں جو اخذ کردہ مدلل نتیجے، ذمے داری کے واضح تعین، کوتاہیوں کی نشاندہی، وجوہات کے بے باک بیان اور عمدہ تجاویز کے لحاظ سے ہماری قومی تاریخ میں بے مثال ہیں۔

انھی دو بڑے اور اہم فیصلوں نے آگے چل کر ان کی ذاتی زندگی اور کیرئیر کے لیے مشکلات پیدا کردیں ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اب اپنے لیے انصاف حاصل کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہم جن فیصلوں کا ذکر کر رہے ہیں ان میں سے ایک فیصلہ انھوں نے بطور چیف جسٹس کوئٹہ ہائیکورٹ 2014 میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کردہ ایک رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر، کوئٹہ ہائی کورٹ بم دھماکہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے طور درج کیا۔ 110 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انھوں نے کوئٹہ ہائیکورٹ دھماکے کا مختلف زاویوں سے شواہد اور معلومات کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس دھماکے میں تین سو سے زائد افراد جان بحق ہو گئے تھے۔

اس رپورٹ میں دہشتگردی کے واقعے کے پیچھے محرکات و اسباب، حکومت، افواج اور پولیس کی غفلت اور ریاست کا شہریوں کے تحفظ بارے دوہرا اور دوغلا معیار بے نقاب کیا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ واضح طور پر ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) اور وزارت داخلہ کے مشکوک کردار پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔ انٹیلی جنس معلومات ہونے کے باوجود ادارے کس طرح دہشتگردی کا منصوبہ روکنے میں ناکام رہے۔ رپورٹ میں ایف سی، پولیس اور دیگر حساس اداروں کے مابین ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول اور موثر کمیونیکیشن کی کمی جیسی بنیادی ادارہ جاتی خامیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔

جسٹس فائز عیسی کا دوسرا اہم فیصلہ 2017 کے فیض آباد دھرنا کیس کے ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر قومی سلامتی کے اداروں کے دھرنے کے پیچھے ہونے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ انھوں نے فیصلے میں دوٹوک موقف میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں مثلاً یہ کہ دھرنے کے شرکا کو ریاستی اداروں نے لاجسٹک سپورٹ سے لے کر مالی معاونت تک کس قانون کے تحت فراہم کی۔ جب حکومت نے پولیس کو دھرنا اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پھر پولیس نے کس کے کہنے پر حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ شرکا کو کھانا کس نے فراہم کیا اکسانے کا کردار کس نے ادا کیا اور سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر کس کے ایما پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ ان سب سوالات کے مدلل جوابات فیصلے میں ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں۔

ہماری تاریخ شاہد ہے کہ انصاف کے اصولوں پر مبنی جرات مندانہ اور عوامی مفاد میں کیے گئے عدالتی فیصلوں کی ہمارے ہاں کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ اب ایسے میں کہیں سے ایک ایماندار، آئین و قانون پر سختی سے عمل پیرا اور کسی فرد یا ادارے کو مقدس گائے ماننے سے انکار کرنے والا قاضی محمد عیسی جیسے بڑے باپ کا فرزند جسٹس فائز عیسی مقتدر قوتوں کو کیسے قابل قبول ہو سکتا تھا۔ لہذا قاضی فائز عیسی کو ہٹانے کے لیے ریاست نے اپنے تمام تر وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اور ہمیشہ کی طرح بہانہ بنایا گیا غیر ملکی اثاثے جو دراصل ان کی غیر ملکی شہریت کی حامل بیوی کے ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق جسٹس صاحب اپنی بیوی کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ قانون کیا کہتا ہے کیونکہ اصل مقصد تو راستے کی دیوار بننے والے، حق سچ اور انصاف کے فیصلے کرنے والے نڈر اور ایماندار جج سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments