شاہد آفریدی، وزیراعظم (انشاءاللہ)


آپ نے غور کیا ہو گا کہ جب بھی ہمارے ہاں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو اپنی انتخابی مہم کے لئے ہر امیدوار اپنے نام کے ساتھ ایم۔ این۔ اے (انشاءاللہ) یا ایم۔ پی۔ اے (انشاء اللہ) لکھوا لیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ سارے امیدوار تو الیکشن نہیں جیت پاتے ہیں مگر سب کو اپنی جیت کا یقین ضرور ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے ایک قومی ہیرو شاہد آفریدی آج کل جہاں بھی جاتے ہیں تو ایسے گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے ساتھ وزیراعظم (انشاءاللہ) کا پوسٹر لے کر پھر رہے ہیں۔

کیونکہ کبھی تو ان کی سڑک کے کنارے کھڑی گاڑی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے ایک تصویر سامنے آجاتی ہے۔ کبھی ایک چھوٹے سے بچے کو جوتا پہناتے ہوتے اور کبھی طیارہ حادثہ کے موقع پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی پیاری تصویریں دیکھنے میں ملتی ہیں۔ کبھی وہ آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں ہمارے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پر مودی سرکار کے خلاف بیان بھی داغ آتے ہیں۔ کبھی بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں روایتی بلوچی لباس پہن کر تقریر فرما آتے ہیں۔ ان تمام جگہوں پر جاتے ہوئے ہمارے پیارے محکمہ زراعت کے لوگ بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔

یہی نہیں اپنے وزیراعظم بننے کے بعد کے بیانات بھی جاری کردیتے ہیں۔ مثلاً کبھی فرماتے ہیں کہ ”اگر وزیراعظم بن گیا تو ملک سے غربت کا خاتمہ کردوں گا“ ۔ یا کبھی کہتے ہیں کہ ”اگر وہ موجودہ حالات میں وزیراعظم ہوتے تو کورونا بحران سے نبٹنے کے لیے وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے“ ۔ یا پھر کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ”ان کا سیاست میں آنے کا فی الحال ارادہ تو نہیں ہے مگر مستقبل میں کیا پتا خدا نے ان سے کیا کام لینا ہو“ ۔ یہاں پر شاید دل سے تو وہ محکمہ زراعت کہنا چاہ رہے ہوں گے مگر بس مجبوری کی وجہ سے ان کو خدا کا ہی نام لینا پڑگیا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاہد بھائی کی یہ سب آنیاں جانیاں ایسے ہی نہیں شروع ہوگئی ہیں۔ بلکہ شاید ان کو محکمے کی طرف سے ضرور کوئی پیغام پہنچایا گیا ہوگا۔ اور پھر ویسے بھی وزیراعظم بننے کی خوبیاں تو ان میں موجود ہیں ہی۔ ان میں کچھ خوبیاں تو ہمارے پیارے عمران خان صاحب جیسی ہیں اور کچھ خان صاحب سے بھی بڑھ کر ہیں۔ مثلاً ہمارے لالہ، خان صاحب کی طرح ہینڈسم ہیں۔ بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی ہینڈسم ہیں۔ خان صاحب نے جیسے ورلڈکپ جیتا۔ ویسے ہی ہمارے لالہ نے ہمیں ٹی ٹونٹی ورلڈ چیمپئن بنایا۔

یار دوست اب اس پر اعتراض کریں گے کہ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے وقت تو یونس خان کپتان تھے۔ مگر ان کو کیا پتا کہ اس کے اصلی ہیرو تو ہمارے لالہ تھے۔ بلکہ ہمارے لالہ نے تو اپنی کپتانی میں بھارت میں ہونے والا 2011 کا ورلڈکپ بھی تقریباً جتوا ہی دیا تھا۔ مگر بیڑہ غرق ہو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا، کہ وہ وہاں سیمی فائینل میں بھارت سے ہارنے کی ڈیل کر آئے۔ اسی طرح ہمارے شاہد بھائی نے بھی، ہمارے خان صاحب کی طرح اپنا ایک رفاہی ادارہ بنایا ہوا ہے۔ جس کے توسط سے وہ اکثر رفاہی کام سرانجام دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ پھر خان صاحب کی طرح ہمارے شاہد بھائی بھی عقل سے زیادہ جذبات کا استعمال ہی کرتے ہیں۔

لالہ کی جو خوبیاں ان کو خان صاحب سے بھی ممتاز بناتی ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہمارے خان صاحب تو وزیراعظم بننے سے پہلے بھارت کے کافی گن گاتے تھے۔ اور وہ مودی جی سے مل کر بھی آئے تھے۔ مگر ہمارے لالہ اس معاملے میں پہلے سے ہی بھارتی سرکار اور مودی جی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ دوسرا ہمارے شاہد بھائی کی ذاتی زندگی، خان صاحب کی ذاتی زندگی کے مقابلے میں کافی صاف ستھری ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے خان صاحب کے کچھ سکینڈلز تھے اور ان کا طرز زندگی بہت ماڈرن تھا جو کہ اب مذہبی ہوگیا ہے۔

مگر ہمارے پیارے لالہ کا دامن اس حوالے سے ناصرف صاف ہے بلکہ وہ تو ابھی سے ہی تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں۔ اور اپنا طرز زندگی بھی انھوں نے مذہبی رکھا ہوا ہے۔ پھر ہمارے خان صاحب تھوڑے اکھڑ مزاج بھی واقع ہوئے ہیں اور کئی لوگوں سے، خاص طور پر اپوزیشن سے ان کا رویہ بالکل اچھا نہیں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے شاہد بھائی سب کے ساتھ ایک بہت اچھا رویہ روا رکھتے ہیں۔ جس کا اظہار ان کے اپوزیشن کے حوالے سے دیے گئے بیان سے بخوبی ہوتا ہے۔ اور پھر محکمے کے ساتھ ان کی ہم آہنگی بھی خان صاحب کے مقابلہ میں تھوڑی زیادہ مثالی ہے۔

لیکن کیا کریں اتنی خوبیاں ہونے کے باوجود بھی ہمارے یار دوست شاہد بھائی پر تنقید کرتے ہوئے کبھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بار وزیراعظم، ایک کرکٹر ہی بنے؟ تو ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کے علاوہ اور آپشن ہی نہیں ہے کیونکہ پہلے سے موجود سیاستدان تو سارے کے سارے کرپٹ ہیں۔ اب اگر کوئی اور عہدہ ہوتا تو محکمے والے اپنے ہی کسی ریٹائرڈ بندے کو لگا دیتے۔ مگر اب عہدہ وزیراعظم کا ہے تو اس لیے یہ نہیں کیا جاسکتا۔

پھر باقی شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے اتنے چاہنے والے ہی نہیں ہیں جتنے ہمارے شاہد بھائی کے ہیں۔ کیونکہ قوم کا مزاج بھی تو ان کے مزاج جیسا ہی ہے ناں۔ اور کبھی وہ نادان یہ اعتراض کردیتے ہیں کہ لالہ جب کھیلتے رہے تو ایک دفعہ انھوں نے گیند کو منہ میں ڈال لیا تھا۔ اب یہ بھی کوئی اعتراض ہے بھلا، بھئی ہمارے لالہ کو بھوک لگی ہوئی تھی اور اس حالت میں وہ سرخ گیند کو سیب سمجھ کر چبا بیٹھے جس پر انھوں نے معافی بھی مانگ لی تھی۔

لہذا میرے خیال میں تو لالہ سے اچھا اور مناسب وزیراعظم کا کوئی اور امیدوار ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے ادارے کا ان کو چن کر ان کی ٹریننگ کا فیصلہ بہت زبردست ہے۔ خان صاحب کو تو وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے کے لیے اتنے سال لگ گئے مگر ہمارے لالہ اگلے الیکشن تک مکمل تیار ہوجائیں گے اور ان کو وزیراعظم بھی بنا دیا جائے گا پھر آتے ہی وہ جیسے کرکٹ میں باقی ٹیموں کے چھکے چھڑاتے تھے ویسے ہی ہمارے ازلی دشمن بھارت کے چھکے چھڑا کر کشمیر اس سے چھین لیں گے۔

اور باقی معاملات بھی بہترین بنا کر ہمارے پیارے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیں گے۔ اس لیے جو حضرات ابھی خان صاحب کی بطور وزیراعظم کارکردگی سے تھوڑا مایوس ہوگئے ہیں۔ وہ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، کیونکہ ہمارے انشا اللہ وزیراعظم، شاہد آفریدی جب آئیں گے تو وہ ساری کسر نکال دیں گے جو خان صاحب پوری نہیں کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments