تحریک انصاف حکومت کی عملداری آخر کہاں تک ہے؟


پریس کانفرنس کرتے ہوئے درجن بھر سرکاری ترجمانوں میں سے ایک غیر منتخب سرکاری ترجمان سندھ حکومت کو گورننس بہتر کرنے کے مشورے دے رہے تھے تو اس وقت ٹی وی چینلز پہ یہ خبر بھی چل رہی تھی کہ نیازی سرکاری کی آٹھارویں ترمیم کے بعد جس چوبیس کلومیٹر رقبہ پہ مشتمل وفاقی دارالحکومت، میں حکومتی عملداری ہے وہاں ان کی اپنی گورننس کا حال یہ ہے کہ پچھلے پانچ دنوں سے نوے فیصد پیٹرول پمپ بند ہو چکے ہیں اور عوام پیٹرول کے ایک ایک لیٹر کے لیے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ چینی سمیت تمام اشیاء ضرورریہ کی قیمتیں اس طبقے کی قوت خرید سے باہر ہیں جن کے درد میں خان صاحب نے لاک ڈاؤن ہٹا کر ملک کو کورونا کے پھیلاؤ کی بدترین صورتحال سے دوچار کر دیا جس کی وجہ سے اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے، جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں پچھلی کئی دہائیوں کی سب سے کم تر سطح پہ ہیں تو اپنے عوام کو آٹے میں نمک برابر رلیف دے کر جیسے حاتم طائی کی قبر پہ لات مار دی اور پھر اس پہ سونے پہ سہاگا ان کی گورننس ہے جو اپنے اس رلیف کو ابھی تک عوام تک پہنچانے میں ناکام ہے۔ پچھلے تین ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی تو ضرور ہوئی ہے مگر اس پہ عمدارآمد کون کروائے گا، وزیراعظم بار بار عوام تک رلیف پہنچانے میں ناکامی پہ برہمی کا اظہار کرتے نظر تو ضرور آ تے ہیں لیکن ان کی یہی برہمی ان کی بے بسی اور رٹ نہ ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر رہی ہے، کیونکہ اپنے حکومتی فیصلوں پہ عمدارآمد کو یقینی بنانا بھی محترم ہینڈسم وزیراعظم صاحب کی حکومت کی ہی ذمے داری ہے۔ خان صاحب اور ان کی پوری کی پوری درجنوں ترجمانوں کی گالم گلوچ برگیڈ اپنی توانائیاں اپوزیشن کے خلاف اپنے جذبۂ انتقام کو تسکین پہنچانے اور عوام کی توجہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور اپنی نا اہلی نالائقی کو چھپانے میں صرف کر رہی ہے۔

وزیراعظم صاحب چینی کمیشن کی رپورٹ آنے کے دو ہفتوں کے بعد بھی چینی کی قیمتوں کو پرانی سطح پہ لانے میں ناکام ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی گورننس کی حالت یہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوتا ہے تو آئل کمپنیز کہتی ہیں کہ وہ اس قیمت پہ پیٹرول فراہم نہیں کر سکتیں اور پیٹرول مارکیٹ سے غائب ہوجاتا ہے، جبکہ مسابقتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیٹرول کے ذخائر اس وقت 2 لاکھ 72 ہزار میٹرک ٹن جبکہ ڈیزل کے ذخائر تین لاکھ ستر ہزار میٹرک ٹن سے زائد ہیں جو کافی عرصے کے لیے ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اسی طرح فرنس آئل جو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کی عالمی قیمتیں بھی ریکارڈ گراوٹ کا شکار رہی ہیں لیکن بجلی آج بھی 2018 کے مقابلے میں دو گنی سے بھی زیادہ مہنگی فراہم کی جا رہی ہے، حالانکہ سابق چیئرمین ایس ای سی پی محمد علی کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں آئی پی پیز کی جانب سے قومی خزانے اور عوام کی جیبوں پہ 4802 ارب روپے کے ڈاکے کے ہوش اڑا دینے والے انکشافات کیے جس پہ کچھ دن تو درجنوں سرکاری ترجمان اور کچھ گمشدہ سیاسی وزراء بغلیں بجاتے یہ کہتے نظر آئے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا اور بجلی کی قیمتیں کم کرکے نہ صرف عوام کو رلیف دیا جائے گا بلکہ کئی سالوں سے اس لوٹ مار کے نتیجے میں عوام سے لوٹے گئے ہزاروں ارب کی ریکوری کروا کر پیسے عوام کو واپس منتقل کیے جائیں گے۔ مگر پیسے تو کیا واپس ہوں گے آئی پی پیز کے بارے میں رپورٹ بھی کہیں مٹی کے ڈھیر میں دبتی نظر آ رہی ہے اور بجلی کی قیمتیں بھی اسی رفتار سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں اور یہ ہے خان صاحب کی حکومت کی شاندار گورننس و عملداری۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کی حکومت کے یہ بائیس ماہ عوام کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہیں، ایک طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان بپا ہے جو تھمنے کے بجائے مزید بھیانک روپ اختیار کرتا جا رہا ہے تو دوسری جانب خان صاحب کی حکومتی عملداری ہے جس کا پتا نہیں لگ رہا کہ وہ اس پورے ملک پہ ہے یا صرف بنی گالا کے محلات تک محدود ہے۔ خان صاحب اب تک اپنے کسی وعدے دعوے اور حکم پر عملدرآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں، ان کی حکومت کا دورانیہ اب تک پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی بھیانک بلکہ میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ منحوس ترین دورانیہ رہا ہے جس میں صرف بائیس ماہ میں ملکی معیشت، سیاست اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی اندہوناک حادثے یا سانحے کا منہ نہ دیکھنا پڑا ہو، کوئی ہفتہ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب خان صاحب کی ریاست مدینہ کو اپنی ہی حرکتوں کی وجہ سے شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔

آج پاکستان ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ نازک اور خطرناک صورتحال سے دوچار ہے ایسے میں بھی خان صاحب اور ان کی حکومت عوام کو رلیف دینے، اپنے احکامات پہ عمدارآمد کو یقینی بناکر اپنی گورننس کو بہتر کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور ان کی کردارکشی کی مہم کی پشت پناہی میں مصروف ہے، خان صاحب کے درجن بھر ترجمان عوام کو یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ خان صاحب کو ملک کے غریب اور پسماندہ طبقات کی کتنی فکر ہے، وہ کتنے دبلے ہو چکے ہیں اپنے غریب و لاچار عوام کے غم میں۔

مگر، انہیں اس بات کی بہت زیادہ فکر ہے اس کی عملاً کوئی نشانی نظر نہیں آتی کیونکہ ان کی عملداری میں آنے والے علاقوں میں بھی ان کے احکامات پہ عمدارآمد اب تک کہیں ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، لہذا تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی گورننس اور پورے ملک پہ حکومتی عملداری کا ثبوت پیش کرنے کے لیے عوام کو اپنے احکامات پہ عمدارآمد کو یقینی بنا کر دکھانا ہوگا، پیٹرول کی ترسیل و تقسیم کے معاملات معمول پہ لانے ہوں گے، چینی اور اشیاء ضرورریہ کی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی لا کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا حقیقی رلیف عوام کو دینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments