مختاریا ہوش کر، گل ودھ گئی اے


میرے فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا۔ گھڑی کی سوئیاں بتا رہی ہیں کہ آنکھ لگے بمشکل پانچ گھنٹے گزرے ہیں۔ گھنٹی کی آواز تھم چکی ہے۔ کال اسپتال سے تھی۔ ری ڈائل کیا تو جونیئر ڈاکٹر نے بتایا کہ ڈاکٹر شیراز آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری آواز ڈاکٹر شیراز کی تھی۔ یار حسنین مجھے علم ہے تم صرف چھ گھنٹے پہلے ڈیوٹی آف کر کے گئے ہو بہت مجبوری میں کال کر رہا ہوں، میرے بھانجے کی حالت بہت خراب ہے۔ ڈیوٹی پر جونیئر ریزیڈنٹ ہے۔ وینٹیلیٹر کیس ہے۔ آنٹیوبیشن کرنی پڑے گی۔ پلیز جلدی سے آ جاؤ۔

ڈاکٹر شیراز میرے کولیگ ہیں۔ میری نیند غائب ہو چکی ہے۔ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوا اور گاڑی اسپتال کی جانب دوڑا دی۔

آج کل جب بھی اسپتال سے کال آتی ہے تو دماغ میں یہ ہی خیال ہوتا ہے کہ ہو گا کوئی بے چارا بوڑھا مریض جو بڑھاپے کے دیگر عوارض کے ساتھ بد قسمتی سے اس وائرس کا شکار ہو گیا ہو گا۔ جسم بھی تو ایک مشین ہی ہے جو پرانی ہو کر کمزور ہو جاتی ہے تو طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور یہ وائرس تو پرانی مشینوں پر تیزی سے حملہ آور ہوتا ہے۔

میں تمام رستے سوچتا گیا کہ سمیع تو جوان لڑکا ہے پر میں ایک ڈاکٹر ہوں میں نے جلدی سے اس سوچ کو جھٹک دیا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ پینڈامک میں کچھ بھی ممکن ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو ڈاکٹر شیراز دیگر تمام مراحل مکمل کروا چکے تھے۔ اب آئی سی یو میں مریض کے علاوہ میں، جونیئر ڈاکٹر اور ایک ٹیکنیشین علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

لڑکے کی سانس بری طرح اکھڑ رہی تھی ایسے جیسے سانس لینے کے لیے خود سے لڑ رہا ہو۔ اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا وہ سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا پر آکسیجن اندر نہیں جا رہی تھی۔ وہ کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اکھڑی سانسوں کی وجہ سے بے ربط جملے بول رہا تھا۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے جو سمجھ میں آیا وہ کچھ یوں تھا، میرے جسم میں بہت درد ہے۔ ڈاکٹر کرونا تو بوڑھوں کو ہوتا ہے۔ میں تو صرف بائیس سال کا ہوں۔ میں تو کبھی بیمار بھی نہیں ہوا پھر مجھے کیوں ہوا؟

میں تو دو ہفتے پہلے دوست کی پارٹی میں گیا تھا۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لندن سے آیا تھا۔ ہم بچپن سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ پڑھے ہیں۔ میں تو بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سانس اور زیادہ اکھڑ رہی ہے

کیا آپ مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وینٹیلیٹر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ٹھیک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔ جاؤں گا نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے گھر۔ ۔ ۔ جانا ہے۔ میری امی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا دو۔ جملے مبہم سے الفاظ میں بدل رہے ہیں۔

میں نے اپنی پروفیشنل لائف میں بہت کچھ دیکھا ہے پر ایسا پہلی بار ہوا کہ مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنے میں مشکل درپیش ہو کیوں کہ میرا بیٹا بھی قریباً اسی عمر کا ہے۔ اپنے کسی جذبہ کا اظہار نہ ہونے دینا میرے پیشے کا تقاضا ہے۔ شکر ہے کہ میرا چہرہ سوائے آنکھوں کے مکمل ڈھکا ہوا ہے اور وہ میرا چہرہ نہیں پڑھ سکتا۔ ڈاکٹر بھی انسان ہیں کبھی نہ کبھی کمزور لمحات ہماری زندگی میں بھی آ ہی جاتے ہیں۔ میں بمشکل اپنے آنسو روک پایا پر اس کوشش میں میری اپنی سانس بے ترتیب ہونے لگی۔ میں، جس کے لیے موت ایک روٹین کا معاملہ ہے۔ اسپتال میں تو آئے دن اموات ہوتی رہتی ہیں۔ میں کیوں اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کر پا رہا؟

میں نے اسے نیند کا انجیکشن لگایا۔ انستھیزیالوجسسٹ وہ آخری چہرہ ہوتا ہے جو مریض بے ہوشی سے پہلے دیکھتا ہے اور ریکوری کے بعد بھی پہلا چہرہ ہمارا ہی ہوتا ہے، جو اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ یہ تو ایک معمول کی بات ہے۔ مریض کو آنٹیوبیشن کے عمل سے گزارنے سے پہلے اس کی ووکل کورڈ کا پیرالائز ہونا ضروری ہے وگرنہ جسم کا نظام مزاحمت کرتا رہے گا اور ووکل کورڈ کو نقصان کا اندیشہ بھی رہے گا۔ اس لیے بیہوش کیا جاتا ہے۔

آج کا کیس معمول کا کیس نہیں ہے۔ میرا چہرا وہ آخری چہرہ ہے جو وہ دیکھ رہا ہے۔ بے ہوش ہونے سے پہلے وہ اپنی بچی کھچی طاقت جمع کر کے بولا میں اٹھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاؤں، گا؟

میں نے بھی اپنے حتی الامکان پر یقین لہجے میں کہا، تم تکلیف کی وجہ سے سو نہیں پا رہے اب تم سو جاؤ جب اٹھو گے تو خود کو بہت بہتر محسوس کرو گے لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ جس حالت میں ہے، اس میں دوبارہ اٹھنے کا امکان نا ہونے کے برابر ہے۔ وہ بے ہوش ہو چکا ہے۔ میں نے ٹیوب اس کے حلق میں پاس کی۔ اس کے بچنے کا امکان نہیں ہے۔ وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو رہا ہے۔ چند روز ہی جی پائے گا اور یہ نیند کوئی معجزہ ہی توڑ سکتا ہے۔

میں بھاری دل کے ساتھ آئی سی یو سے نکلتے ہوئے بہت کچھ سوچ رہا تھا۔ میرے کئی کولیگ بھی اس کا شکار ہیں لیکن ہمارا تو پیشہ ہی ایسا ہے کہ جس میں یہ خطرہ تو ہر وقت رہتا ہے۔ ہم میں سے اکثر کے پاس تو این 95 ماسک بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ پانچ دن تک بے ہوشی کے عالم میں زندہ رہا۔ کیا اسے زندگی کہا جا سکتا ہے؟ وہ تو ایک خواب تھا جو پانچ دن پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔

یہ کہانی ایک ڈاکٹر دوست نے اپریل کے شروع میں سنائی تھی۔ اپریل کے آخر میں اس کا پھر سے فون آیا وہ بہت فرسٹریٹڈ تھا۔ تم نے سنا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے! میرا جواب سنے بغیر اس نے اپنا بیان جاری رکھا کہ یہ لاک ڈاؤن بھی ایک طرح کا مذاق ہی تھا صرف چند علاقوں کے سوا اکثر جگہوں پر کاروبار قانون کی ناک کے نیچے جاری تھا۔ ہاں آفت نئی تھی تو لوگوں کے دل میں خوف ضرور تھا۔

پھر رمضان آیا تو مولوی نے ان کے دل سے رہا سہا خوف بھی مٹا دیا اور وہ جنہیں ایمان کی ا، ب، پ کا بھی پتہ نہیں چلے ایمانی طاقت کے بل پر وبا کا مقابلہ کرنے۔ مت سمجھنا کہ میرا ایمان کمزور ہے کہ کمزور ہوتا تو ان نامساعد حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام نہ کرتا۔ کبھی کبھی تو اتنی ڈپریشن ہوتی ہے کہ دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جاؤں پر پھر ضمیر کی لعن طعن شروع ہو جاتی ہے۔ اب عید آنے والی ہے۔ ایسے وقت میں یہ لولا لنگڑا لاک ڈاؤن ختم کرنے کے جو بھیانک نتائج ہوں گے ، ان کا اندازہ کسی کو بھی نہیں۔

وہ بولتا رہا اور میں خاموشی سے اس کی کتھا سنتی رہی، کانوں کے علاوہ جسم کا ہر عضو سن تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس ملک میں کیا پڑھا لکھا کیا جاہل سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہیں۔ سب کے سب حقیقت کو جھٹلانے پر تلے ہیں۔ کوئی نہیں سمجھ رہا کہ یہ وہ آگ ہے جو پھیل گئی تو بجھانا ناممکن ہو جائے گا کیونکہ ہمارے پاس وہ وسائل ہی نہیں کہ اس پر قابو پا سکیں۔ آج کئی دن کے واویلا کے بعد کچھ سٹاف کو پی پی ای ملا ہے دیگر شعبہ جات کے ڈاکٹر اور دیگر عملہ اب بھی اس سے محروم ہے۔ چلتا ہوں، دعاؤں میں یاد رکھنا۔

وہ فون بند کر چکا تھا اور میں خدا جانے کتنی دیر تک فون کان سے لگائے بیٹھی رہی۔

اگلے کئی روز ان آنکھوں نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر گردش کرتی وہ تصاویر اور وڈیوز دیکھیں جو آنے والے وقت کی تصویر آئینے کی بجائے توے میں دکھا رہی تھیں، صرف ان کو جو چشم بینا رکھتے ہیں ورنہ قوم تو وبا سے گتھم گتھم ہونے کے لیے بازاروں، سڑکوں، مساجد اور دیگر مقامات پر دھکم پیل میں مصروف تھی۔ میں سوچ میں تھی کہ یہ قوم ہے یا ہجوم ہے؟ اور کیا یہ آخری تہوار ہے؟ موت کے بازار میں زندگی بے بس کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔

دو ہفتے کے بعد اعداد و شمار آنے شروع ہوئے تو بدترین خدشات درست ہوتے دکھائی دیے۔ اب تو وبا کے سست رفتار قدموں کو پہیے لگ چکے ہیں۔ اب خدا جانے بات کہاں ٹھہرے گی۔

میں کون سے اعداد و شمار کو مانوں، وہ جو سرکاری ہیں یا وہ جو ندیم چن نے مختارے کو بہت دن پہلے بتائے تھے! سرکار تو ہمیشہ سے جھوٹ بولتی آئی ہے۔ ہم سب تو اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ مسیحا جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر دن رات اس وبا سے جوج رہے ہیں ان پر الزام تراشی سے باز نہیں آتے۔ پی پی ای کے مسلسل استعمال کی وجہ سے جن کے چہرے ہر وقت دکھتے ہیں وہ زہر کے ٹیکے لگا رہے ہیں۔ شرم سے نظریں جھک جاتی ہیں اس جہالت پر۔ سازشی کہانیوں کے جال میں جکڑی قوم کو صرف کہانیاں ہی تو سنائی گئی ہیں، محلاتی سازشوں کی کہا نیاں۔ ازمنہ رفتہ کی عظمت کی کہانیاں کہ اس قوم کے رہنما کی نظر صرف ماضی کو دیکھتی ہے مستقبل کو نہیں۔

ہوشربا اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے وژن لیس ہجوم کے وژن لیس حکمرانوں کا نشہ ٹوٹا تو پتہ چلا کہ جولائی اگست تک بات لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ مختاریا بات بڑھ گئی ہے، ہزاروں لوگ مر رہے ہیں تم بچوں کو لے کر گھر پر بیٹھو۔ تو اب کسی سمارٹ لاک ڈاؤن کی نوید سنائی ہے۔ نجانے کیوں اب ہینڈسم اور سمارٹ جیسے الفاظ سے خوف آتا ہے۔

سنا تھا قانون اندھا ہوتا ہے۔ اس کے اندھے ہونے کے بیشمار شواہد ہیں پر لاک ڈاؤن ختم کروانے کا فیصلہ تو اس کے اندھے ہونے کا واضح ثبوت تھا پر اب اس کی بینائی بھی کسی فلم میں سر پر چوٹ کھائے ہیرو کی بینائی کی طرح سے لوٹ آئی ہے اور دامن پر لگے داغوں کو چھپانے کے لیے عدالت عظمٰی نئے احکامات صادر کر رہی ہے۔ مشتری ہوشیار باش کے مصداق قوم کو آنے والے مہینوں کے ہوش ربا اعداد و شمار سے آگاہ کرنے کی پیش بندی کی جا رہی ہے۔ پر ان غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کی سزا کس کو ملے گی؟

ہم جو بھی کرتے ہیں اس کے نتائج ہمیں لازماً بھگتنے پڑتے ہیں کہ یہ ہی قانون قدرت ہے۔ اپنی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کہ قیمت نہ صرف ہم بھگتیں گے بلکہ وہ بھی جو چلا چلا کر آنے والے وقت کی تصویر دکھاتے رہے۔ اور کہتے رہے کہ ڈرو اس وقت سے کہ جب یہ کہانی ہر گھر کی کہانی ہو۔ وہ معاشرتی ذمہ داری بتاتے رہے اور مختارا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑاتا رہا۔ بلکہ اسے مذاق سمجھتا رہا۔ اب ایک اور تہوار سر پر کھڑا ہے پھر محرم آئے گا اور بھولا مختارا مذہب کے نام پر پھر سے بیوقوف بن جائے گا۔

مختارے کو یہ بات کس حد تک سمجھ میں آئی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ نہیں معلوم کہ مختارا اس تہوار پر جانوروں کی قربانی دے گا یا اپنی؟ یا آنے والا محرم ایک ایسی کرب و بلا کا نظارہ دکھاتا ہے جس میں شہدا کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی اور ہر گھر میں ایک شام غریباں بپا ہو گی۔ مختارے کو اس کے سوا کیا کہوں کہ موت کا فرشتہ اس وقت فاسٹ فاروڈ موڈ میں ہے، ہوش کے ناخن لے مختاریا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments